حضور ﷺ کی مدنی زندگی -حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدنی زندگی۔


دنيا كى سب سے عظيم ہجرت قمری تقويم کے مطابق نيا ہجری سال شروع ہوچکا ہے۔جوحقيقت ميں پيارے نبی صلی الله عليہ وسلم کے ہجرت کی يادگار ہے ۔ وه ہجرت جو رحمت عالم صلی الله عليہ وسلم کی23 سالہ زندگی ميں ايک عظيم انقلابی اقدام ہے ۔وه ہجرت جسکے بعداسلام کی شان وشوکت قائم ہوئی اور الفت ومحبت کی بنياد پراسلامی معاشره کی تشکيل عمل ميں آئی۔ وه ہجرت جوفتح مکہ کی تمہيد ثابت ہوئی اور اسلام ايک عالمگير قوت کی حيثيت سے دنيا کے سامنے آيا۔ لفظ ہجرت سے شايد آپ نامانوس نہ ہونگے؟ دين وايمان کو بچانے کے لئے اپنے محبوب وطن کو خيرباد کہہ کر دوسری جگہ منتقل ہوجانے کا نام ہجرت ہے ۔ ليکن آج ہم جس ہجرت کی بات کريں گے وه اس نبی کی ہجرت ہے جن سے افضل انسان اس دهرتی پر پيدا نہيں ہوا ، جو تاريخ انسانی کا سب سے بڑا مخلص ، ہمدرد ، اور غمگسارتها، جس نے انسانوں کو جينے کا سليقہ سکهايا۔ جس نے رنگ ونسل کے بهيدبهاؤ کومڻايا ، جس نے سارے انسانوں کو ايک دين ،ايک الله،اور ايک نظام حيات پر جمع کرديا اور محض 23 سال کی مختصرمدت ميں۔ آپ صلی الله عليہ وسلم نے جس ماحول ميں آنکهيں کهولی اس وقت پوری دنيا بالخصوص عرب اخلاقی اور دينی اعتبارسے ديواليہ ہوچکا تها ۔ اہل وطن کے بيچ ايسی پاکيزه اور بے داغ زندگی گذاری کہ تاريکيوں ميں روشن چراغ بنے رہے ۔ سچائی اور امانت داری ايسی کہ امين وصادق کے لقب سے پکارے گئے۔ آج عمر کی چاليس بہاريں ديکه چکے ہيں ۔غارحراميں جبريل امين آتے ہيں اور آپ کو منصب نبوت پر فائز کرديا جاتا ہے ۔۔شروع ميں تين سال تک لوگوں کو رازداری کے ساته ، چهپ چهپاکر دعوت ديتے رہے ۔ پهرحکم آياکہ اے نبی ! دين حق کا اعلان کرديجئے ۔ اب کيا تها ؟ دعوت کے ليے کمر کس ليتے ہيں ، رات ودن آپ کا يہی مشغلہ ہے ، پہاڑی پر ، منڈيوں ميں ، ميلوں ميں ہرجگہ جاتے ہيں ، لوگوں کو ايک الله کی طرف بلاتے ہيں ۔ ليکن ذرا سوچئے تو سہی وه قوم جو 260 بتوں کے سامنے سر ڻيکتی تهی، انہيں کب بهاتا کہ لوگ بت پرستی ترک کرديں۔ چنانچہ دشمن آپ کے پيچهے لگ گئے، آپ کو پاگل اور ديوانہ کہا، اور آپ کی بات سننے سے لوگوں کو روکنے لگے ۔ پهرجولوگ آپ پر ايمان لائے تهے ان کو ايسی ايسی تکليفيں دی گئيں جنہيں سنکرکليجہ پهڻنے لگتاہے۔ چلچلاتی دهوپ ميں لڻاکر چهاتی پر بهاری پتهر رکه دياجاتا ، لوہے کو آگ پر گرم کرکے اس سے داغاجاتا ۔ دہکتے کوئلے پر چت لڻاکران کی چهاتی پر پاؤں رکه ديتے کہ کروٹ نہ بدلنے پائيں۔ کسی کو لوہے کی زره پہناکر گلے ميں بانده ديتے اور لفنگوں کے حوالے کرديتے جوانہيں گليوں ميں گهسيڻتے پهرتے تهے ۔ کتنے ہی اس عذاب کی تاب نہ لاکر شہيد ہوگئے ۔ اور کتنوں کی آنکهيں ضائع ہوگئيں ۔ ليکن کيا مجال کہ کسی ايک نے بهی کلمہ کفر زبان پر لايا ہو۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگيا توآپ صلی الله عليہ وسلم کی اجازت سے صحابہ کرام کی ايک جماعت ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرگئی۔ جہاں کا بادشاه نيک دل تها۔ البتہ آپ اپنے کام ميں مسلسل لگے رہے ۔ مشرکين نے جب ديکها کہ محمد صلی الله عليہ وسلم اپنے کام سے رکنے والے نہيں ہيں ۔۔۔ تو نبوت کے ساتويں سال آپ کا سماجی بائيکاٹ کرديا ، تين سال تک ابو طالب کی گهاڻی ميں محصور رہے ،جہاں بهوک کی شدت سے پتوں اور درختوں کی چها ل تک چبانے کی نوبت آگئی ۔ بعثت کے دسويں سال قريش اور ڈهيٹ ہوگئے، کيونکہ آپ کے چچا ابوطالب ۔ جوآپ کے ليے ڈهال کی حيثيت رکهتے تهے ۔دنيا سے جاچکے تهے ۔کوئی راستے ميں کانڻے بچها رہا ہے ، تو کوئی دروازے پر گندگياں پهينک رہا ہے ۔ کوئی بد تميزی سے سرپر مڻی ڈال رہاہے۔ توکوئی گلے ميں چادرلپيٹ کر اسقدر اينڻهتا ہے کہ آپ کا دم گهڻنے لگتاہے۔ جب مکہ کی گلياں اجنبی ہوگئيں تو آپ نے طائف کا رخ کيا کہ شايد اہل طائف اسلام کو اپناليں ليکن وہاں کی زمين اور سخت ثابت ہوئی ،وہاں کے لوگوں نے آپ کے ساته بدسلوکی ہی نہيں کی ’ اپنے اوباشوں کو آپ کے پيچهے لگاديا جنہوں نے پتهر سے مار مار کر آپ کو لہولہان کرديا ، جب زخموں سے چور ہوکر بيڻه جاتے تويہ درنده صفت انسان بازو تهام کر آپ کو اڻهاتے ۔ پهر پتهر برسانا شروع کر ديتے ۔ مخالفتوں کے اسی طوفان ميں نبوت کے گياره سال گذرجاتے ہيں.... جب ہرجگہ مخالفت ہونے لگی توآپ کی توجہ ان قافلوں کی طرف مرکوز ہوگئی جو مکہ ميں حج کے ليے يا تجارتی لين دين کے ليے آيا کرتے تهے ، آپ راز داری کے ساته اُن سے ملتے اور اُن لوگوں کے سامنے اسلام کا پيغام پيش کرتے تهے۔ اِسی دوران يثِرب يعنی مدينہ کے چه لوگوں نے اسلام قبول کرليا،۔۔ ايک سال بعد موسم حج ميں باره آدمی آئے اور انہوں نے رسول اکرم صلی الله عليہ وسلم کے ہاته پر اسلام کی بيعت کی ، پهر دوسرے سال موسم حج ميں 73 مرد اور 2 عورتيں آئيں، ان لوگوں نے آپ کے ہاته پر بيعت کرنے کے ساته ساته آپ کو مدينہ آنے کی دعوت بهی دی ۔ جب وه يثرب لوڻنے لگے توآپ نے ان کے ہمراه حضرت مصعب بن عمير رضى الله عنه کو بحيثيت داعی روانہ کرديا ۔ چنانچہ آپ کی کوشش سے وہاں مسلمان اچهی خاصی تعداد ميں ہوگئے ۔ اس طرح صحابہ کرام کو ايک پناه گاه مل چکی تهی، انہيں دين کی حفاظت مطلوب تهی ، چنانچہ صحابہ کرام چپکے چپکے مکہ مکرمہ سے مدينہ منوره کی طرف ہجرت کرنے لگے، دين کی حفاظت کے ليے انہوں نے اپنا مال واسباب ، گهر بار ، بيوی بچوں ، تجارت وکاروبار سب کچه قربان کرديا۔ ليکن قريش جو اسلام کے درپے آزار تهے انہيں کب بهاتا کہ مسلمانوں کو امن وسکون سے مدينہ ميں زندگی گذار تے ديکهيں۔ چنانچہ انہوں نے فورا قريش کی پارليمنٹ دار الندوة ميں ايک ميڻنگ طلب کی ، جس ميں اس بات پراتفاق ہوا کہ“ مکہ کے تمام قبائل سے ايک ايک طاقت ور نوجوان کا انتخاب کيا جائے ، اور رات ميں محمد صلی الله عليہ وسلم کے گهرکا محاصره کرليا جائے ، اور جس وقت وه صبح بيدا رہوکر اپنے گهر سے باہر نکليں تو سب ايک ساته ان پر حملہ کرديں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔ اس طرح نعوذبادين محمدی کا صفايا ہوجائے گا”۔ چنانچہ پلان کے مطابق آج کی رات آپ کے گهر کی گهيرابندی ہوچکی تهی،ادهر االله تعالٰی نے وحی کے ذريعہ اپنے حبيب کو کافروں کے منصوبے کی اطلاع دے دی تهی ۔ چنانچہ آدهی رات گذرنے کے بعد آپ کو حکم دياگيا کہ آپ اِسی وقت سفر ہجرت پر روانہ ہوجائيں ، آپ نے اپنے بستر پر حضرت علی رضى الله عنه کو سونے کا حکم ديا اور اہل مکہ کی امانتيں ان کے حوالے کرتے ہوئے تاکيد کی کہ ايک ايک کی امانتيں لوڻا کر مدينہ پہنچ جانا ۔ ساته ہی يہ بهی فرمايا کہ انہيں کوئی تکليف نہ پہنچ پائے گی ۔ آپ اپنے گهر سے باہر آئے ، مڻهی بهر مڻی لی اور ان کے سروں پر ڈالتے ہوئے ان کے بيچ سے نکل گئے ۔اس طرح آپ ابوبکر رضى الله عنه کے گهر پہنچے ،انہيں رفيق سفر بنايا، اور بلاتاخير غار ثور پہنچ گئے۔ ادهر محاصره کرنے والے خوشی سے پهولے نہيں سما رہے تهے کہ آج تو اسلام کا خاتمہ ہی ہوجائے گا ليکن ان نادانوں کو کيا پتہ تها کہ حضور ان کے درميان سے نکل چکے ہيں ۔۔ دهوپ نکلنے تک انتظار ميں رہے ، جب تهک ہار کر گهر ميں داخل ہوئے تو ان کی آنکهيں کهلی کی کهلی ره گئيں ۔ اب کيا تها؟ دارالندوه سے اعلان ہوا کہ“ جو کوئی محمد اور ابوبکر کو زنده يا مرده کسی بهی حالت ميں پيش کرے اُسے سو اونڻنياں انعام ميں دی جائيں گی ”۔ يہ انعام کوئی معمولی نہيں تها ، چنانچہ قريش کے نوجوان آپ کی تلاش ميں نکل گئے ۔ مکہ اور اس کے اطراف واکناف کا چپہ چپہ چهان مارا ، يہاں تک کہ وه جبل ثور کے اس غار تک بهی پہنچ گئے جس ميں يہ دونوں مقدس ہستياں چهپی تهيں ، عالم يہ تها کہ اگر کوئی شخص اپنی نظر بهی نيچی کرليتا تو آپ دونوں کو ديکه سکتا تها۔ سيدنا ابوبکر صديق گهبرا گئے اور کہنے لگے : يا رسول الله ! اگر ان ميں سے کوئی اپنے قدموں کو بهی ديکه لے تو ہم دونوں کو پالے گا ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا : ابوبکر ! ان دو آدميوں کے بارے ميں آپ کا کيا خيال ہے جن کا تيسرا الله ہے ۔لاتحزن ان الله معنا گهبرانے کی کوئی ضرورت نہيں ، الله ہمارے ساته ہے ۔ رسول اکرم صلی الله عليہ وسلم اور سيدنا ابوبکر صديق رضی الله عنہ تين دن تک غار ميں چهپے رہے ، تين دن کے بعد عبد الله بن اريقط دونوں اونڻنياں لے کر غار کے دہانے پر پہنچ گيا ، چنانچہ يہ چهوڻا سا قافلہ پوری تياری اور منظم منصوبہ بندی کے ساته مدينہ کی جانب روانہ ہوا۔ سفر کے تين دن گذر چکے تهے، تيسرے دن سراقہ بن مالک نے آپ صلی الله عليہ وسلم اور ابوبکر رضى الله عنه کو دور سے ديکها۔ انعام کی لالچ ميں آپ سے قريب ہونا چاہا تو کئی بار اس کی اونڻنی کا پيرزمين ميں دهنس گيا، بالآخر اس نے آپ صلی الله عليہ وسلم سے پروانہ امن حاصل کرليا ۔ اس طرح رسول اکرم صلی الله عليہ وسلم چند دنوں ميں قبا ء پہنچ گئے جہاں کچه دنوں قيام فرمايا اور اِسی قيام کی مدت ميں آپ نے مسجد قبا کی تعمير فرمائی ۔ يہ پہلی مسجد تهی جو اسلام ميں بنائی گئی ، آج بهی يہ مسجد مسجد قبا کے نام سے مشہور ہے ۔ ادهر مدينہ ميں يہ خبر پہنچ چکی تهی کہ رسول الله صلی الله عليہ وسلم قبا پہنچ چکے ہيں ۔اور جلد مدينہ تشريف لانے والے ہيں ۔ مدينہ کے مسلمان ہر دن آپ کے استقبال کے لئے مدينہ سے باہر آتے اور دهوپ کے تيز ہونے تک انتظار کرکے چلے جاتے ، يہاں تک کہ وه دن آگيا جس دن کا شدت سے انتظار تها اور نبی رحمت صلی الله عليہ وسلم يثرب پہنچ چکے تهے ۔آج کے دن سے يثرب مدينہ بن گيا۔ سارا مدينہ خوشی سے جهوم رہا تها ۔ کيا بچے ،کيا جوان ، اورکيا بوڑهے سب ديده ودل فرش راه کيے تهے ۔ سيدنا انس بن مالک رضی الله عنہ فرماتے ہيں : “ ميں نے رسول الله صلی الله عليہ وسلم کے مدينہ آنے سے زياده روشن ، معطر اور پر مسرت دن نہيں ديکها،اور نہ ہی آپ صلی الله عليہ وسلم کی وفات سے زياده تاريک ، المناک اور افسرده دن کوئی ديکها ہے ،، محترم قارئين ! اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ ہجرت نبوی ميں ہمارے ليےکيا پيغام ہے ؟ آئيے ذرا اس پر بهی ايک نظر ڈال ليں (1 (ہجرت ميں سب سے پہلے ہميں يہ پيغام ملتا ہے کہ صبر اور يقين ؛نصرت اور غلبہ کا راستہ ہے : نبی صلی الله عليہ وسلم اور آپ کے صحابہ مکہ ميں ظلم و ستم سہتے سہتے تيره سال کی طويل مدت گزارچکے تهے ، چنانچہ الله تعالی نے ہجرت مدينہ کے بعد اُن پر نصرت وغلبہ کا دروازه کهول ديا­ (2 (ہجرت کا دوسرا پيغام يہ ہے کہ جولوگ پر توکل اور يقين کرتے ہيں الله تعالی اُن کے ليے کافی ہوتا ہے: ومن يتوکل علی الله فهو حسبہ جو الله پر توکل کرے الله اس کے ليے کافی ہے” (الطلاق:3( (3 (ہجرت کا تيسرا پيغام يہ ہے کہ حب رسول کے سامنے ساری محبتيں ہيچ ہيں : چنانچہ اِس کا ايک نمونہ حضرت ابوبکؓر کی زندگی ميں جهانک کرديکهئے ۔ ہجرت کے موقع سے جب رسول الله صلی الله عليہ وسلم نے ابوبکؓر کو اطلاع دی کہ آپ نے انہيں رفيق سفرچنا ہے توابوبکؓر کی آنکهيں خوشی سے چهلکنے لگيں۔۔ يہ محض کنايہ نہيں حضرت عائشہؓ کی چشم ديد گواہی سنئے ۔ فرأيت أبا بکر يبکی ’ وما کنت أحسب أن أحدا يبکی من الفرح (السيرة النبوية لابن ہشام 2/ 93 (ميں نے ديکها کہ ابو بکر رضی الله عنہ (رفاقت کی خبر سن کر خوشی سے ) رو رہے ہيں اور اِس سے پہلے مجهے اِس بات کا تصور تک نہ تها کہ کوئی خوشی و مسرت کی وجہ سے روتا ہوگا ۔ اور پهريہ محبت ہی تو تهی کہ غار کی بِل پر اپنا پيررکه ديتے ہيں کہ ايسا نہ ہوکوئی موذی جانور آپ کو تکليف پہنچائے ،اور جب بچهو ڈنک مار ديتا ہے تو ہلتے بهی نہيں ہيں کہ مبادا آپ کی نيند ميں خلل آجائے ،يہاں تک کہ تکليف کی شدت سے ڻپکنے والا آنسو ہی پيارے نبی صلی الله عليہ وسلم کو بيدار کر پاتا ہے ۔ سبحان الله کےسی محبت تهی ان الله والوں کو اپنے حبيب سے ۔ (4 (واقعہ ہجرت ميں سب سے نماياں کردار انصارمدينہ کا دکهائی ديتا ہے جنہوں نے خلوص دل سے اسلام قبول کيا ،پيارے نبی صلی الله عليہ وسلم اور صحابہ کرام کو ہجرت مدينہ کی دعوت دی، حالانکہ وه دعوت ديتے وقت بخوبی جان رہے تهےکہ اُس کے نتيجے ميں انہيں تمام عرب کی دشمنی مول لينی ہوگی ۔ يہی نہيں بلکہ آپ صلی الله عليہ وسلم کو اپنا حاکم تسليم کيا اورآپ کی وفادار رعيت بن گئے ، مہاجرين مسلمانوں کو اپنا بهائی بنايا ، اپنے مال واسباب اور جائداد تک ميں ان کو شريک کيا ۔۔۔ ايسے ايثار کی مثال تاريخ کے کسی دور ميں نہيں ملتی ۔ اخيرميں الله تعالی سے دعا ہے کہ بارالہا توہم سب کو پيارے نبی کے اسوه حسنہ کو اپنانے اور اسلامی تعليمات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفيق عطا فرما ۔۔ آمين يا رب العالمين وصلی الله علی نبينامحمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعين ہجرت نبوی: دروس و اسباق ہجری سال نوکےآغازميں ہرمسلمان کا ذہن اس تاریخی ہجرت کی طرف مرکوزہو جاتا ہے جس نےرسول صلی الله عليہ وسلم کی ۲۳سالہ دعوتی جدوجہد ميں ایک عظيم انقلاب برپا کيا اورجو سياسی، اقتصادی،معاشی اورآفاقی امن وسکون سے لبریززندگی کا نقطہ آغازبنی ۔آج ہم آپ کے سامنے ہجرت کے انہيں چنداغراض ومقاصد اوراس کے دروس واسباق پيش کریں گے: ہجرت کيا ہے ؟ ہجرت نام ہے دین کی خاطر ایسی جگہ منتقل ہوجانے کاجہاں اسلامی شعائرکی ادائيگی ممکن نہ ہو، ليکن ہجرت نبوی عام ہجرتوں سے بالکل الگ نوعيت کی ہجرت تهی ، آپ صلی الله عليہ وسلم کی ہجرت آرام وراحت کے حصول کے ليے نہيں تهی اورنہ آپ کا مقصد طلب شہر ت، حصول جاه ومنصب اور حب سلطنت تها ۔خوداشراف قریش آپ کو حاکم بنانے اور آپ کے قدموں تلے مال وزر کے ڈهير بچهانے ليے تيار تهے ،ليکن آپ کا مقصدُاس سے حد درجہ اعلی ورافع تها ،إسی ليے جب آپ کے چچاابوطالب نے آپ کے پاس آکرُان کے معبودوں سے تعرض نہ کرنے کی گزارش کی توآپ نے عزم وہمت کا پيکر بن کرکہا: ياَعِّم ! و ِالله لو وَضُعوا الشم َس في يَمينِي ، و الَقَمَر في يَساِري ، على أْن أتُرَك هذا الأَمَر حتىُيظِهَرُه ُالله أْو أهلَِك فيه ما تَرْكُتُه ( ضعفہ الالبانی فی الضعيفۃ 909( چچا جان ! بخدا اگر وه ہمارے دائيں ہاته ميں سورج اوربائيں ہاته ميں چاند بهی لاکر رکه دیں پهربهی ميں اس کام کو ہرگز نہيں ی اِسے غالب کردے یا اس راه چهوڑ سکتا یہاں تک کہ الله تعالٰ ميں اپنی جان دے دوں ۔( شيخ البانی نے اسے السلسلۃ الضعيفۃ 909 ميں ضعيف کہا ہے ) عزیزقاری !ہجرت نبوی سےہميں سب سے پہلا سبق یہ ملتا ہے کہ توکل اسباب کے منافی نہيں یعنی الله پر اعتماد وبهروسہ کا مطلب یہ نہيں کہ کسی کام کے ليے جدوجہد اور کوشش ترک کرکے چپ چاپ ہاته پاؤں باندهے بيڻه جائيں کہ الله کو جو کچه کرنا ہے وه خودکردے گا، اسباب اور تدبيرکی ضرورت نہيں ،بلکہ توکل نام ہے کسی کام کو پورے اراده وعزم اورتدابير وکوشش کے ساته انجام دینے اوریقين رکهنے کا کہ اگراس کام ميں ی اس ميں ضرورہی ہم کو کامياب فرمائے بهلائی ہے تو الله تعالٰ گا ۔ آج کل توکل کے باب ميں بهی مسلمانوں کی اکثریت افراط اور تفریط کی شکارہے ،کچه لوگ اسباب وتدابيرہی پر کلی اعتمادکرتے ہيں ،اوراسی کومثبت یامنفی نتائج کا مکمل ذمہ دار ڻهہراتے ہيں ،جبکہ کچه لوگ اسباب کوبالکل نظراندازکرکے الله پربهروسہ کادم بهرتے ہيں ،حالانکہ توکل کامفہوم یہ تهاکہ کلی طورپراسباب اورتدابير اختيارکرنے کے بعداثراور نتيجہ کوالله کے سپردکردیاجائے اوریہ سمجهاجائے کہ الله مددگارہے توکوئی ہميں ناکام نہيں کرسکتا اوراگر الله نہ چاہے توکوئی ہماری مرادیں پوری نہيں کر سکتا ۔ چنانچہ واقعہ ہجرت پرغورکرنے سے پتہ چلتا ہے کہ الله کے رسول صلی الله عليہ وسلم نے ہر ممکن مادی وسائل اور اسباب وتدابير کو پيش نظررکها حالانکہ آپ کووحی ربانی کی مکمل تائيد حاصل تهی ۔ (۱(مثلا آپ نے گهر سے نکلنے سے پہلے حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر سلا یا تاکہ دشمن کو احساس ہو کہ آپ اندر سو رہے ہيں (۲(پهر رفيق سفر کا انتخاب کيا جس کا شرف حضرت ابوبکؓر کو حاصل ہوا ۔ (۳(دوتيز رفتار سواریوں کی چار مہينہ پہلے سے خوب دیکه ریکه کی گئی اورعين سفر ہجرت کے موقع پرانہيں ضروری سازوسامان سے ليس کيا ۔ ’’عبدالله بن اریقط‘‘کو راستے کی نشاندہی (۴(راستوں کے ماہر کے ليے باقاعده اجرت پرساته ليا ۔ (۵(زادراه اورسامان خوردونوش کاباقاعده انتظام کيا گيا ،حضرت ابوبکؓرنے تقریبا چه ہزار درہم اپنے ساته رکه لی حضرت اسما بنت ابوبکر ہر شام کهاناپہنچایا کرتيں اور عامربن فہيره رات کو دوده پہنچایا کرتے ۔ (۶(ہجرت کے معاملے کو مکمل رازداری ميں رکها صرف چندلوگوں کوخبردی جنہيں براه راست اس منصوبہ کوعملی جامہ پہنایاتها ۔ (۷(راستوں کے بارے ميں آپ نے دشمنوں کومغالطہ دینے کے ليے جنوب ميں یمن کا راستہ اختيار کيا حالانکہ مدینہ سمت شمال ميں واقع ہے ۔ (۸(اسی طرح غارثورميں تين روز روپوش رہے تاکہ دشمنوں کی تگ ودو ميں کمی آجائے ،اس بيچ دشمنوں کے نقل وحرکت سے باخبررہنے کا بهی مکمل انتظام کيا گيا ،اسی قدرقدموں کے نشانات بهی مڻانے کی کوشش کی گئی مباداکہ یہ نشانات کفار قریش کو سمت سفرکا پتہ دے دیں ۔ ان تمام اسباب ووسائل کی مکمل فراہمی کے بعد الله ہی پر کامل بهروسہ اور مکمل اعتماد تها ،اسی ليے جب کفار قریش کے قدموں کی آہٹ سے حضرت ابوبکؓر کو تشویش لاحق ہوئی توآپ نے جواب دیا ، لاتحزن ان الله معنا ابو بکر !مت گهبراؤ الله ہمارے ساته ہے ،یہ ہے توکل کا حقيقی مفہوم ۔ ہجرت سےہميں دوسراسبق یہ ملتا ہے کہ جوالله کے احکام کی حفاظت کرتا ہے الله تعالی اس کی حفاظت کرتے ہيں ذراغورکریں کفار قریش نے آپ کے قتل کے ليے کس قدر پلاننگ کی تهی ،ننگی تلواریں سونتے ہر طرف سے گهرکوگهير رکها تها ،بچنے کے کوئی ظاہر ی اسباب دکها ئی نہيں دے رہے تهے ،ہاں!صرف الله رب العالمين کی ذات تهی جواپنے حبيب کو ظالموں کے چنگل سے نکال سکتی تهی ،چنانچہ وحی کے ذریعہ آپ کو اطلاع دے دی جاتی ہے ، آپ ان کی آنکهوں پر ایک مشت مڻی پهينکتے ہيں اوران کے سامنے سے صحيح سالم گزرجاتے ہيں، پهرغارثورميں آتے ہيں، وہاں بهی الله تعا لی نے آپ کو کفارقریش کی نگاہوں سے اوجهل رکها حالانکہ وه غار کے دہانے تک پہنچ چکے تهے ۔ اسی طرح سفر ہجرت کے دوران الله تعالی نے سراقہ بن مالک کے نرغے سے بهی بچایا بلکہ وه الڻے پناه کاطالب ہوا ۔ غرضيکہ جس نے بهی الله کی حفاظت کی الله نے اس کی حفاظت کيا ،اورحفاظت ميں بنيادی مرتبہ دینی حفاظت کو حاصل ہے البتہ اس ميں جسمانی حفاظت بهی شامل ہے ليکن یہ کوئی قاعده کليہ نہيں کہ نيک اور پرہيز گار انسان کو کسی طرح کا زک نہ پہنچے، بسااوقات نيک لوگوں پربهی تکليفيں آتی ہيں جوبطور آزمائش ہوتی ہيں جن سے ان کے گناه معاف ہوتے ہيں اوردرجات بلندہوتے ہيں جيساکہ خودرحمت عالم صلی الله عليہ وسلم کوقدم قدم پر تکاليف اورمصيبتوں کاسامناکرناپڑا ۔ ہجرت سے ہميں تيسراسبق یہ ملتا ہے کہ تنگی اور کشادگی ہرحال ميں اعتدال اورتوازن کوملحوظ رکهنا چاہئے،الله کے نبی صلی الله عليہ وسلم جس دن بے سروسامانی کی حالت ميں مکہ سے نکلے اس دن آپ کے اندرجيسی خاکساری تهی ،اورالله پرجيسا پختہ اعتماد تها ایسی ہی خاکساری اورایساہی اعتماد اس دن بهی پایا گيا جس دن آپ مکہ ميں بحيثيت فاتح داخل ہوئے ،اوراسلام اورمسلمانوں کوبالادستی حاصل ہوئی ،مکہ سے نکالے جانے کے دن آپ کی جيسی زندگی تهی ویسی ہی زندگی اس وقت بهی رہی جب کہ جزیره عرب ميں اسلامی فتوحات کے پرچم لہرارہے تهے ،اورمسجدنبوی ميں سيم وزرکے انبارلگے تهے ۔ ہجرت سے ہميں چوتهاسبق یہ ملتا ہے کہ بہترین انجام ہميشہ نيکوکاروں اورتقوی شعاروں کاہوتاہے : چنانچہ جوشخص بهی ہجرت کے واقعے پر غورکرے گا اسے بادی النظرميں احساس ہوگا کہ دعوت اسلامی زوال انحطاط کی طرف گامزن ہے ليکن فی الواقع ہجرت ہميں سبق دیتی ہے کہ بہترین انجام نيکوکاروں کاہوگا،چنانچہ ہوابهی ایساہی ،مدینہ پہنچنے کے بعد پہلی بار اسلامی حکومت کاقيام عمل ميں آیااورخالص اسلامی معاشره کی تشکيل ہوئی ،پهروه اسلام جو مکہ ميں غربت وبے کسی کے عالم ميں تها ،مدینہ کی سرزمين نے اسے قوت بہم پہنچایا ،بالخصوص فتح مکہ کے بعد جب کفار قریش نے رحمتہ للعالمين کے رحم وکرم کا بے مثال نمونہ دیکها توان کی آنکهيں کهل گئيں، جو کبهی اسلام کے کڻردشمن تهے اسلام کے غازی اور سپاہی بن گئے ،اب کيا تها ؟ دیکهتے ہی دیکهتے جزیره عرب اور اس کے قرب وجوار ميں حق کی آواز گونجنے لگی، لوگ جوق درجوق اسلام ميں آنے لگے اورہرسواسلام کابول بالاہوگيا،یہ سب برکات تهے ہجرت نبوی کے غرضيکہ ہجرت اس بات کااعلان تهی کہ اہل باطل کوجس قدر بهی قوت وشوکت حاصل ہو جائے، ان کا انجام زوال اورہلاکت وبربادی ہی ہے ،اور اہل حق کو جس قدر بهی مصائب وآلام سے دوچار ہوناپڑے ان کا انجام فتح وظفر اور کاميابی وکامرانی ہی ہے،اور ایسا کيوں نہ ہو جبکہ الله تعالی نے اہل ایمان کی نصرت ومددکاوعده کياہے ،اور ان کے ليے ہرسختی کے بعد آسانی اور ہرتنگی کے بعد کشادگی کی ضمانت لی ہے ۔ واقعہ ہجرت سے پانچواں سبق یہ ملتا ہے کہ صبر وشکيبائی مومنوں کا شيو ه ہے اورصبرکاپهل ہميشہ ميڻها ہوتا ہے :اگرالله تعالی چاہتا تو نبی اکرم کو معمولی تکليف بهی نہيں پہنچ سکتی تهی ، ليکن آپ ابتلا ءوآزمائش دوچار کئے گئے تاکہ آپ کے صبر وضبط کی پرکه کی جا سکے،بے پناه اجروثواب کے مستحق ڻهہریں ،اور یہ نمونہ آپ کے بعد داعيان حق کے ليے مشعل راه بنے تاکہ وه اس کی رہنمائی ميں شدائد ومشکلات سے بحسن وخوبی نبرد آزماہوسکيں ۔ واقعہ ہجرت ميں سب سے نمایا ں کردار انصار مدینہ کادکهائی دیتا ہے جنہوں نے خلوص دل سے اسلام قبول کيا آنحضرت صلی الله عليہ وسلم اور آپ کے اہل ایمان ساتهيوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی دعوت دی،حالانکہ وه دعوت دیتے وقت بخوبی جان رہے تهے کہ اس کے نتيجہ ميں انہيں تمام عرب کی دشمنی مول لينی ہوگی ،اور یہی نہيں کہ آپ اور آپ کے مکی ساتهيوں کی رہائش کے ليے اپنا شہر پيش کردیا بلکہ آپ کو اپناحاکم بهی تسليم کيا ،آپ کی وفادار رعيت اور جانثار فوج بن گئے مہاجرین مسلمانوں کو اپنے ساته برابرکے حقوق دیئے ،اپنابهائی بنایا،اپنے گهربار ،اپنے مال واسباب اور اپنی جائدادوں تک کو ان کے ليے پيش کردیا یہاں تک کہ جن کے پاس دوبيویاں تهيں انہوں نے اپنے مہاجربهائی کے سامنے طلب رکها کہ ان ميں سے جوانہيں پسند آجائے اشاره کریں انہيں طلاق دے دوں اورعدت گزرنے کےبعد ان سے شادی کرکے اپناگهربساليں ایسے ایثارکی مثال تاریخ کے کسی دور ميں نہيں ملتی ہے۔ 1951؁عيسوی ميں دوسری جنگ عظيم کے متاثرین کے پيش نظراقوام متحده کے زیراہتمام 147ممالک نے جنيواکنوینش ميں مہاجرین کے ليے باہمی اتفاق سے کچه تجاویز پاس کياتها جس کابنيادی دفعہ تهاکہ کسی بهی ملک ميں مہاجرین کی اقامت وقتی ہوگی ليکن اس کے باوجود سوال یہ ہے کہ کيا مہاجرین کے مسائل حل ہوئے ،آج بهی یورپ ميں مقيم بہيترے مہاجرین کے مسائل پيچيده بنے ہوئے ہيں ۔ ہجرت نبوی ميں ان مسلمانوں اورنومسلم بهائيوں کے ليے جو اپنے معاشرے ميں ره کراسلامی شعائر کی بحسن وخوبی ادائيگی نہ کرسکتے ہوں یہ پيغام ہے کہ وه الله پراعتماد کرتے ہوئے اس جگہ کوخيربادکہہ کرایسی جگہ رہائش اختيار کریں جہاں مسلمانوں کی آبادی ہو اوراپنے شرعی فرائض کوبحسن وخوبی انجام دے سکتے ہوں ،کيوں کہ اسی ميں ان کی بهلائی ،ان کے اہل وعيال کی بهلائی ،ان کے دین وایمان کی بهلائی ،اور ان کے دنيا کی بهی بهلائی ہے ،الله تعالی کافرمان ہے: َوَمنُيَهاِجْر فِي َسبِيِل اللَّـِه يَجِْد فِي اْلأَْرضُِمَراَغًماَكثِيًراَوَسَعًةۚ سورة النسا ۱۰۰ اورجو کوئی الله کی راه ميں اپناوطن خيرباد کرے وه زمين ميں ،گویاکہ دین رہنے کی بہت جگہ اورروزی ميں کشادگی پائےگاکی خاطر ہجرت کرنا حصول رزق کابنيادی ذریعہ ہے ،بلکہ جوشخص الله کی خاطر کوئی چيزچهوڑدیتاہے الله تعالی اسےاس سے بہترچيز عنایت کرتا ہے ،مہاجرین کی مثال ہمارے سامنے ہے ،جب صحابہ کرام نے اپنے گهربار ،اپنے اہل وعيال اوراپنے مال ودولت کوخيربادکہہ کر مدینہ کی طرف ہجرت کيا توالله تعالی نے ان کو اس کا نعم البدل عطافرمایا کہ جزیره عرب کو ان کے تابع اور مسخرکردیا ،انہيں سرزمين شام، ایران اوریمن کے خزانوں کی چابياں عطافرمادیں ،اورقيصروکسراکے خزانے ان کے قدموں ميں ڈهيرہوئے ۔ هجرت نبوی صلى الله عليه وسلم الحمد رب العالمين والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلين نبينا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعين وبعد نبوت کاتيرہواں سال ہے ،ربيع الاول کے آغاز کی بات ہے ، ايک رات دنيا کا سب سے عظيم انسان ....اپنے ايک ساتهی کے ساته غار ميں چهپا ہوا ہے جان کے ڈر سے .... اُسے جان سے مارڈالنے کے ليے اسی کے خاندان کے 13جانباز تلوار سونتے اُس کے گهرکو گهير چکے تهے،اورآدهی رات کا انتظارکر رہے تهے ، ليکن اُن نادانوں کو کيا پتہ تهاکہ جن کے قتل کا وه انتظار کررہے ہيں وه اُن کے بيچ سے نکل چکے ہيں ، يہ ہيں ہمارے حبيب ،محسن انسانيت صلی الله عليہ وسلم جو آج کی رات غار غار ثور ميں چهپے ہوئے ہيں ۔جب دشمنوں کے ليے انتظار کے لمحات لمبے ہوگئے ،تو گهر ميں جهانکا ،ديکهتے ہيں کہ ايک انسان چادر اوڑهے سورہا ہے ،ليکن وه حبيب نہيں تهے بلکہ حبيب کے چچا زاد بهائی امام علیؓ تهے ،جب قريش کو يقين ہوگيا کہ ہمارا شکار نکل چکا ہے ، توانہوں نے سب سے پہلے اپنا غصہ حضرت علی پر اُتارا ،گهسيٹ کر کعبہ کے پاس لے گئے اورکچه دير کے ليے اُن کو قيد کردياکہ ممکن ہے محمداورابوبکر کی خبر لگ جائے ،جب حضرت علی سے کچه بهی معلومات نہ حاصل ہوسکی تو کاڻے ہوئے کتے کے جيسے ابوبکر کے گهر آئے ، دروازے پر دستک ديا، اسماءنکليں ،اُن سے پوچها : تمہارے ابا کہاں ہيں ،انہوں نے لاعلمی کا اظہار کيا توکمبخت ابوجہل نے ان کو اِس زور سے طمانچہ ماراکہ اُن کے کان کی بالی گر گئی ۔ قريش کے سارے ليڈران باولے ہوچکے تهے ، فوراً انہوں نے ہنگامی ميڻنگ بُلائی اور يہ طے کيا کہ جوکوئی محمد اورابوبکر کو يااُن ميں سے کسی ايک کو زنده يا مرده حاضر کرے گا اُسے ہرايک کے بدلے سو اونڻوں کا قيمتی انعام دياجائے ۔ يہ انعام کوئی معمولی انعام نہ تها ، انعام کی لالچ ميں لوگ ہر طرف پهيل چکے ہيں ، کچه لوگ غارثور کے ڻهيک دروازے پر جاپہنچے ،جب اُن کی کانا پهوسی ابوبکرؓ کے کانو نتک پہنچی تو گهبراگئے ،کہ کہيں يہ ظالم غار ميں داخل نہ ہوجائيں ۔ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ايسی نازک صورتحال ميں بهی اُن کو تسلی دی کہ ابوبکر!ايسے دوآدميوں کے بارے ميں آپ کا کياخيال ہے جن کا تيسرا الله ہے۔ جی ہاں! يہ الله کے نبی صلى الله عليه وسلم کا معجزه تها کہ وه چند قدم کے فاصلہ پر پہنچنے کے باوجود آپ کو نہ ديکه سکے ،اور واپس لوٹ گئے ۔ تين دن تک الله کے رسول ا ابوبکر صديقؓ کے ساته غار ميں چهپے رہے،کفار قريش کی ايک ايک حرکت سے آگاہی حاصل کرتے رہے ،ادهر ابوبکرؓ کے گهر سے دو تيز رفتا ر اونڻنياں آگئيں ،ايک اونڻنی پر نبی اکرم صلى الله عليه وسلم اور ابوبکر سوار ہوئے اور دوسری پر ابوبکر کے غلام عامر بن فہيره اور عبدالله بن اريقط ....، عبدالله بن اريقط راستونکا ماہر تها ،اس ليے اُسے ابوبکرؓ نے گائڈ کے طور پر رکه لياتها۔ اِس طرح ہجرت کايہ عظيم سفر شروع ہوا ،راستے ميں بہت ساری جگہوں پرُرکے ،آرام فرمايا،اورچلتے بنے ۔ سفرکے دوسرے دن راستے سے گذررہے تهے کہ ايک خيمہ دکهائی ديا ،يہ خيمہ ايک خاتون کا تها جس کا نام ام معبد تها ،آپ صلى الله عليه وسلم نے اُس سے پوچها کہ کيا اُس کے پاس کهانے کے سامان وغيره مليں گے ؟ اُس نے معذرت کردی ،کہ بکريا ں بہت دور گئی ہوئی ہيں،ايک بکری ہے بهی تو اُس کا تهن سوکها ہوا ہے ۔واقعی اُس ميں دوده کا ايک قطره نہ تها،الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اُس سے اجازت لی کہ کيا اُسی بکری کو دوه سکتا ہوں، خاتون کوتعجب ہواکہ ميری بات پر اِن کو يقين نہيں ہورہا ہے ....کہا: يہ ليجئے ....يہ ہے بکری ....الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اُسے دوہا تو ايک بڑا برتن بهرگيا،جسے ايک جماعت مشکل سے اڻهاسکتی تهی ،آپ صلى الله عليه وسلم نے ام معبد کو پلايا،وه آسوده ہوگئی ،اپنے ساتهيونکو پلايا،جب سب آسوده ہوگئے تو خود پيا اور دوباره دوه کر برتن بهر ديا۔اورام معبد کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ جب ابومعبد آئے تو يہ دوده انہيں دے دينا اور وہاں سے چلتے بنے ۔ جب ام معبد کا شوہر آياتو دوده کے بهرے ہوئے برتن ديکه کر حيران ره گيا ،پوچها: اِتنا دوده کہاں سے آگيا؟ ام معبد نے کہا: الله کی قسم ! یہاں سے ایک مبارک آدمی کا گذر ہوا ہے ،پهر ساراواقعہ کہہ سنایا۔ ابومعبد نے کہا: ذراُاس کا حليہ تو بتانا، کہنے لگيں : ميں نے ایک ایسا شخص دیکها جس کا حسن وجمال نمایاں تها ،چہره روشن تها ،اخلاق پاکيزه تها،بدن نہ بهاری تها ،نہ کمزور ،خوبصورت اور نرم انداز تها،آنکهونميں گہری سياہی تهی ،پلکيں لمبی تهيں ،آواز بلند تهی ،مگر سخت نہ تهی ،بال بالکل سياه تهے ،گردن لمبی تهی ،ڈاڑهی گهنی تهی ،خاموش ہوتا تو وقار نمایاں تها،بولتا تو معلوم ہوتا کہُاس کی آواز اردگردپر چها گئی ہے ميڻهی گفتگو، واضح الفاظ ، گفتگو جيسے زبان سے موتيوں کی لڑی بکهير رہے ہوں،ُاس پر جان دینے والے ساتهیُاس کو گهيرے رہتے تهے ،ُاس کی خدمت کرتے تهے ،ُاس کی اطاعت کرتے تهے ،نہُترش رو تها نہ سخت کلام ۔ ابومعبد يہ سن کر بول اڻها: الله کی قسم يہ تو وہی صاحب قريش تهے جن کا ذکر ہم سنتے رہتے ہيں۔ روايات ميں آتا ہے کہ اُس کے بعد اُن دونوں نے ہجرت کی اور مدينہ پہنچ کر مسلمان ہوگئے ۔ جب الله کے رسول صلى الله عليه وسلم قديد سے آگے نکلے تو سراقہ بن مالک نے آپ کا پيچها کيا،يہ انعام کی لالچ ميں نکلنے والونميں سے ايک تها ،وه اپنے گهوڑے پر بيڻها ہوا تهااورآپ کا پيچها کر رہا تها،جب قريب پہنچا تو گهوڑا پهسل گيااور سراقہ نيچے گرگيا۔ دوسری بار کوشش کی تو اِس بار سواری گهڻنوں تک زمين ميں دهنس گئی ۔ اِس سے وه ڈرگيا،اُس کی ہمت ڻوٹ گئی اور معافی مانگنے لگا ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے سراقہ کے ہاتهونکی طرف ديکهااورفرمايا: کيف بک يا سراقہ اذا لبست سوار کسری سراقہ ! آج تو تم اونٹ کی لالچ ميں پاگل بنے تهے ليکن اُس وقت تمہاری کيسی شان ہوگی جب تم کسری کے کنگن پہنوگے ۔ کسری کے کنگن ! يہ تو عجيب بات تهی ،سراقہ جيسا انسان ....کسری کے کنگن پہنے يہ تو بہت دور کی بات ہے ،کسری کے درباريونميں حاضری کاتصوربهی نہ کرسکتا تها ....ليکن يہ پيشين گوئی کسی عام انسان کی نہيں بلکہ رسول الله صلى الله عليه وسلم کی تهی جن کی زبان سے وحی کے پهول گرتے تهے ،عمرفاروق کے دورخلافت ميں پوری ہوکر رہی ۔ جب ايران فتح ہوا تو کسری کے کنگن سراقہ کے ہاتهونميں پہنائے گئے ۔ .... راستے ميں بريده اسلمی سے بهی ملاقات ہوئی جو انعام کی لالچ ميں رسول الله صلى الله عليه وسلم اور ابوبکر کے سر کے ليے نکلے تهے ،ليکن جب سامنا ہوا تو نقددل دے بيڻهے اور اپنی قوم کے ستر آدميوں کے ساته وہيں مسلمان ہوگئے ۔ 8ربيع الاول سموار کے دن رسول الله صلى الله عليه وسلم قبا پہنچ جاتے ہيں ،کلثوم بن هدم کے ہاں ڻهہرتے ہيں ،اِ س مدت ميں آپ نے وہاں ايک مسجد بنائی ،يہ پہلی مسجد تهی جو اسلام ميں بنائی گئی ، آج بهی يہ مسجد ‘مسجدقبا ’کے نام سے مشہور ہے ۔ ادهر يثرب ميں يہ خبر پہنچ چکی تهی کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم قبا پہنچ چکے ہيں ،اورجلد ہی يثرب تشريف لائيں گے ،يثرت والے نبی پاک صلى الله عليه وسلم کے ليے آنکهيں بچهائے ہوئے تهے ،يہاں تک کہ وه دن آگيا جس کا ايک ايک لمحہ وه گن رہے تهے ،اورنبی پاک صلى الله عليه وسلم يثرب پہنچ چکے تهے ،آپ کے استقبال کے ليے پورا مدينہ امڈ پڑا تها،يہ ايک تاريخی دن تها جس کی مثال مدينہ کی دهرتی نے کبهی نہ ديکهی تهی ،جمعہ کے دن نبی امدينہ تشريف لے گئے تهے ،اُسی دن سے يثرب کانام مدينہ الرسول ہوگياتها۔ گلی کوچے ميں تکبير وتحميد کے کلمات گونج رہے تهے اورانصار کی بچياں خوشی سے يہ اشعار گارہی تهيں : اشرق البدر علينا من ثنيات الوداع وجب الشکر علينا مادعا داع ايهاالمبعوث فينا جئت بالامر المطاع اِن پہاڑوں سے جو ہيں سوئے جنوب چودهويں کا چاند ہے ہم پرچڑها ۔ کيسا عمده دين اور تعليم ہے ،شکر واجب ہے ہميں الله کا ....ہے اطاعت فرض تيرے حکم کی بهيجنے والا ہے تيرا کبريا محترم قارئين ! انہيں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہيں ،اگلے حلقہ ميں کل ڻهيک اِسی وقت ان شاءالله سيرت طيبہ کی تازه جهلکيوں کے ساته پهر مليں گے تب تک کے ليے اجازت ديجئے الله حافظ غزوه بدر الحمد☆⠆ رب العالمين والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلين نبينا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعين وبعد الله کے رسول صلى الله عليه وسلم اور صحابہ کرام مکہ سے نکل چکے تهے ،مدینہ ميں پناه لے لی تهی ،قریش نےُان کے اموال ضبط کرليے تهے ،ُان کے گهروں پر قبضہ کرليا تها ....اب تو کم سے کمُان ظالموں کو زیادتی سے باز آجانا چاہيے تها ليکن ....نہيں انہوں نے ميڻنگ کی اور عبدالله بن ابی کو خط لکها ....یہ وہی عبدالله بن ابی ہے جویہودی تها جس کو لوگ بادشاه بنانے کی تياری ميں تهے ،اور بعد ميں چل کر دکهاوے کے ليے اسلام بهی قبول کياتها ۔قریش نے خط ميں لکها تها کہ تم نے ہمارے لوگوں کو پناه دے رکهی ہے ،اگر تمُان سے نہيں لڑتے تو سمجه لو کہ ہم تمہارا ہی ستياناس کردیں گے ،تم پر ہی حملہ کریں گے اور تمہارے نوجوانوں کو قتل کردیں گے اورتمہاری عورتوں پرقبضہ کرليں گے ۔ یہ خط پڑهتے ہی مدینہ کے کفارنے سارے عہد وپيمان کو بهلا دیااور الله کے رسول صلى الله عليه وسلم سے جنگ کرنے کے ليے تياری کرنے لگے ،الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو پتہ چلا توُان کے پاس گئے انہيں سمجهایا بجهایا اِس طرح یہ معاملہ دب گيا، ليکن قریش برابر مدینہ کے مشرکين اور یہود سے سازباز کرتے رہے اورُان کو ُاکساتے رہے کہ تم محمد اورُاس کے ساتهيو ں سے جنگ کرو۔ عبدالله بن ابی بهی غصہ ہی ميں تها کہ الله کے نبی صلى الله عليه وسلم کے مدینہ آجانے کی وجہ سےُاس کی تاج پوشی نہ ہوسکی تهی ۔اِدهر مہاجرین کو بهی قریش نے دهمکی آميز پيغام بهيجا کہ تم اِس خوش فہمی ميں مبتلا نہ ہونا کہ ہم سے بچ نکلے ہو بلکہ ہم یثرب پہنچ کر ہی تم سب کا ستياناس کردیں گے ۔ باربار ایسی خبریں آتی رہتی تهيں ،اور مدینہ کے مشرکين اور یہود بهی خطره بنے ہوئے تهے جس سے الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو خود گهبراہٹ لاحق ہوگئی تهی ، کبهی کبهی پوری رات جاگ کر گذار دیا کرتے تهے، یا صحابہ کرام کے پہرے ميں سوتے تهے۔ یہاں تک کہ الله پاک نے یہ آیت نازل فرمائی والله یعصمک من الناس الله آپ کو لوگو ں سے محفوظ رکهے گا ۔ قریش کی زیادتی کا ایک نمونہ دیکهئے کہ ہجرت کے دوسرے سال ربيع الاول کے مہينے ميں قریش کے سرداروں ميں سے ایک شخص کرز بن جابر الفہری مدینہ پہنچا اورمدینے والوں کے جانور جو باہر ميدان ميں چررہے تهے لوٹ کر چلا گيا۔ گویا وه اپنی طاقت کا اظہار کرنا چاہتا تها کہ ہم مکہ ميں ره کر بهی تم پر دهاوا بول سکتے ہيں اورتمہارے مویشيوں کو لوٹ کر لے جا سکتے ہيں ۔ ہجرت کا دوسراسال ہے، مہينہ رمضان کا ہے، ابوجہل نے مکہ ميں یہ مشہور کردیا کہ ہمارا قافلہ جو مال ودولت سے مالامال ہے، اور شام سے لوٹ کرآرہا ہے، مسلمانوں نےُاسے لوڻنے کی تياری شروع کردی ہے، اِس سےُاس کا مقصد لوگوں کو مسلمانوں کے خلافُابهارنا تها خاص کرُان لوگوں کو جن کے قریبیُاس قافلے ميں تهے اورجن جن لوگوں کا مالُاس ميں لگا تها۔ چانچہ ہوا بهی ایسا ہی، ابوجہل نے پوری تياری کی، اور ایک ہزار بہادرفوج لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوگيا کہ محمد اورُان کے ماننے والوں کا صفایاکردے ، اِس فوج ميں سات سو اونٹ تين سو گهوڑے تهے ۔ حالانکہ جس قافلے کا بہانا کرکے ابوجہل نے لوگوں کوُاکسایا تها اور جنگ کے ليے تيار کياتها وه قافلہ بخيریت مکہ پہنچ بهی گيا....اس وقت ابوجہل مردود کو کيا معلوم تها کہ جس فوج کو وه مسلمانوں کے خلاف اکڻها کررہا ہے وہی فوجُاسے موت کے منہ ميں لے جارہی ہے۔ ........اِدهر الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو خبر ملی کہ قریش پوری تياری کے ساته مدینہ پر حملہ کرنے کے اراده سے نکل چکے ہيں، اس ليے آپ نے مسلمانوں سے ؓ اڻهے مشوره کيا کہ ایسے حالات ميں کيا کيا جائے،ُاس پر حضرت ابوبکر ؓ اڻهے اور اچهی بات کہی، پهر مقدادُاڻهے اور اچهی بات کہی، پهر عمر اور انہوں نے کہا : الله کی قسم یا رسول الله ! ہم وه بات نہيں کہيں گے جو بنی اسرائيل نے موسی عليہ السلام سے کہی تهی فاذهب انت وربک فقاتلا انا ههنا قاعدون کہ تم اور تمہارا رب جاواور قتال کرو، ہم یہيں بيڻهے ہيں۔ بلکہ ہم آپ کے دائيں اور بائيں سے، آگے اور پيچهے سے لڑیں گے۔ اِس سے رسول الله صلى الله عليه وسلم کا چہره دمک اڻها اورآپ خوش ہوگئے ،ُاس کے بعد آپ نے پهر فرمایاکہ مسلمانو! مجهے مشوره دو ، اِس پر انصار کی طرف سے حضرت سعد بن معاذُاڻهے اور عرض کيا:ُاس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساته بهيجا ہے ،اگر آپ ہميں سمندر ميں لے چليں اورُاس ميں کودنا چاہيں تو ہم بهی آپ کے ساته چهلانگ لگادیں گے ۔ ہمارا ایک آدمی بهی پيچهے نہيں رہے گا ........یہ حوصلہ افزا باتيں سن کرالله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اطمينان کا سانس ليا اور آپ کا چہره خوشی سے کِهل گيا۔ آپ نے فرمایا: چلواور خوش ہوجاوکيونکہ مجه سے الله نے دو گروہوں ميں سے ایک گروه کا وعده فرمایا ہے، والله اِس وقت ميں گویا قوم کی قتل گاہيں دیکه رہا ہوں۔ اب تک مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہيں تهی، کيونکہ اسلام کو جنگ سے کوئی واسطہ ہی نہيں، اسلام لفظ کا ماده سلم ہے جس کے معنی امن وشانتی اور صلح کے آتے ہيں ۔ ليکن سوال یہ تهاکہ مسلمانوں کو گهر سے نکال دیا گيا تها ، املاک چهين ليے گئے تهے ، اوراب مدینے پر بهی دهاوا بولا جارہا تها .... اگر وه ہاته پر ہاته دهرے بيڻهے رہتے تو دشمن بکریوں کی طرح سب کو ذبح کردیتا اسی ليے الله پاک نے آیتُاتارا اذن للذین یقاتِلون بانهم ظلموا وان الله علی نصرهم لقدیر جنگ کرنے والوں کو اجازت دی جاتی ہے کيونکہُان پر ظلم ہوا اور اللهُان کی مدد پر بيشک قادر ہے ۔ بہرکيف الله کے رسول صلى الله عليه وسلم تين سو تيره مسلمانوں کو لے کر بدرکے مقام پر پہنچے، سواری ميں صرف دو گهوڑے اور ستراونٹ تهے ، مشرکين بهی ُاسی رات پہنچے ۔ ستره رمضان المبارک 2ہجری کی صبح دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا ،آپ نے صفيں برابرکيں اور فرمایا: جب تک ميرا حکم نہ آجائے جنگ شروع نہ بهی ؓ کریں،ُاس کے بعد آپ خيمہ ميں واپس آگئے ،آپ کے پاس ابوبکر تهے ،آپ نے الله پاک سے نہایت گریہ وزاری سے دعا کی یہاں تک کہ فرمایا:اللهم ان تهلک هذه العصابة اليوم لاتعبد ابدا، اللهم ان شئت لم تعبد بعد اليوم ابدا “اے الله اگرآج یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو کبهی تيری عبادت نہ کی جاسکے گی ،اے الله اگر تو چاہے تو آج کے بعد کبهی تيری عبادت نہ کی جائے ”۔ آپ نے اِس سوز سے دعا کی کہ آپ کی چادر تک گردن سے نيچے گرگئی تهی ۔ اس کے بعد جنگ کا آغاز ہوا، قریش کی طرف سے بہترین شہسوارعتبہ ،شيبہ اور وليد بن عتبہ آیا، مسلمانوں کی طرف سےُان کا مقابلہ عبيده بن حارث ،حمزه اورعلی رضی الله عنہم نے کی ، حضرت حمزه نے شيبہ کو مارا ،حضرت علی نے وليد کو مارا ،البتہ عبيده اور عتبہ کے درميان ضربوں کا تبادلہ ہوتا رہا ،یہاں تک کہ حضرت علی اور حضرت حمزه دونوں نے عتبہ کو بهی مار گرایا۔ مشرکين غصہ سے بے قابوہوکر مسلمانوں کی صفونميں داخل ہوگئے اور پامردی کے ساته لڑنے لگے ۔ مسلمان بهیُان کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے تهے ،ُاسی وقت الله پاک نے مسلمانوں کی مددکے ليے ایک ہزار فرشتوں کو نازل فرمایا،الله کے رسول صلى الله عليه وسلمُاس وقت یہ آیت کریمہ تلاوت کررہے تهے سيهزم الجمع ویولون الدبر “عنقریب یہ لشکر ہارجائے گا اور پيڻه پهير کر بهاگے گا ۔ الله کے رسول صلى الله عليه وسلمُان کے بيچ تهے ،آپ نے ایک مڻهی کنکری لی اور مشرکين کے چہروں پر دے ماری ااورکہا: شاهت الوجوه۔ الله کے رسول صحابہ کو ہمت دلارہے ہيں ،فرشتے بهی مسلمانوں کا ساته دے رہے ہيں ، عجيب منظر ہے مشرکين کے ليے ،کسی کی گردنيں کٹ رہی ہيں ،کسی کا ہاته کٹ رہا ہے تو کسی کا سرکٹ کر گررہا ہے ۔ اورپتہ بهی نہيں چل رہا ہے کہ کس نے کاڻا ہے ۔ جی ہاں ! یہ غيبی مدد تهی مسلمانوں کی ....فرشتوں کے ذریعہ ....اِدهردونوعمر بچے عفراءکے بيڻے معاذ اور معوذ ابوجہل کی تلاش ميں تهے،عبدالرحمن بن عوف سے پوچها کہ چچا جان !مجهے ابوجہل کو دکهادیجئے ، پوچها :ابوجہل کو کياکروگے ؟ کہا: مجهے بتایاگياہے کہ وه رسول الله صلى الله عليه وسلمکو گالی دیتا ہے ۔ اِتنے ميں ابوجہل دکهائی دیا، عبدالرحمن بن عوف نےُاس کی طرف اشاره کيا،دونوںُاس پر جهپٹ پڑے اور تلوار سے مار کر قتل کردیا۔جبُاس کا سر الله کے رسول صلى الله عليه وسلمکی خدمت ميں پيش کياگيا تو آپ صلى الله عليه وسلمنے تکبيرکہی اورفرمایا: یہ اِس امت کا فرعون ہے ۔ محترم قارئين ! یہ ہے جنگ بدر جو 17رمضان کو ہجرت کے دوسرے سال واقع ہوئی ، جس ميں چوده مسلمان شہيد ہوئے ،سترمشرکين مارے گئے اور ستر قيد ہوئے ،قيدیوں کے ساته کيامعاملہ کيانبی رحمت نے ؟ اگردیکهيں توُاس زمانے کا قانون جنگ ،مظلوم مسلمانوں کا جوش انتقام اور دوسرے قبيلوں پر رعب بيڻهانے کی ضرورت اِس بات کا تقاضا کررہی تهی کہ اِن ظالموں کا سر جسم سے الگ کردیا جائے ليکن نبی رحمت نے جرمانہ لے کرُان کو رہا کردیا،اورجولوگ پڑهے لکهے تهےُان کے ليے یہ مقررفرمایاگياتها کہ وه انصار کے بچوں کو لکهناسکهادیں۔اِس جنگ نے کفر اورایمان کے بيچ فيصلہ کردیا۔ بهائی نے بهائی سے جنگ کيا، باپ نے بيڻے سے جنگ کيا،الله پاک نے ایمان کو کفر پر غلبہ دیا،اسی ليے اس جنگ کانام یوم الفرقان پڑگيا،یعنی فيصلے کا دن ، حق کو باطل سے جدا کرنے کا دن .... محترم قارئين! انہيں چند کلمات کے ساته ہم آپ سے رخصت ہوتے ہيں ،اگلے حلقہ ميں کل ڻهيک اِسی وقت “سيرت طيبہ کی تازه جهلکيوں کے ساته پهر مليں گے ، ان شاءالله ، تب تک کے ليے اجازت دیجئے۔ تعمير مسجد، مواخات اور معاہدے اب تک کے سفرميں ہم نبی پاک صلى الله عليه وسلم کی مکی زندگی کو پارکرچکے ہيں،اب ہم مدينہ ميں داخل ہوں گے کہ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم مدينہ ميں تشريف لاچکے ہيں،آپ کی اوڻنی مدينہ ميں قدم رکه چکی ہے ،سب کی خواہش تهی کہ ہميں محسن انسانيت کی مہمانی کا شرف حاصل ہوتا ،ليکن آپ کا ارشاد تها کہ اونڻی کو چلنے دو يہ الله کی طرف سے مامورہے ،يہاں تک کہ جب اونڻنی اُس مقام پر پہنچی جہاں آج مسجد نبوی ہے تو بيڻه گئی ،اب لوگوں نے اپنے اپنے گهر لے جانے کے ليے گذارش شروع کردی ،آپ صلى الله عليه وسلم کی اونڻنی جہاں بيڻهی تهی اُسی کے قريب حضرت ابوابوب انصاریؓ کا گهرتها ،اِس طرح الله کے رسول صلى الله عليه وسلم ابوابوب انصاری رضى الله عنه کے مہمان بنے جو اُن کے ليے بہت بڑی سعادت کی بات تهی وه آئيں گهر ميں ہمارے خدا کی قدرت ہے کبهی ہم اُن کو کبهی اپنے گهر کو ديکهتے ہيں مدينہ پہنچنے کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم نے دعوت کے ساته ساته جو اہم کام کئے اُن ميں پہلا کام تو يہ تها کہ آپ نے مسجد نبوی کی تعميرشروع کی ،اوراُس کے ليے وه زمين خريدی جس پر آپ کی اونڻنی بيڻهی تهی ،يہ دويتيم بچونکی زمين تهی ،اِس ميں مشرکين کی چند قبريں تهيں ،آپ صلى الله عليه وسلمنے پہلے زمين کو اچهی طرح سے صاف کرواديا،اُس کے بعد تعمير کا کام شروع ہوا ،ديواريں مڻی اورکچهی اينڻوں سے اُڻهوائيں ،دروازے کے دونوں بازوں پتهر کے لگائے گئے ،چهت کهجور کی شاخوں کی اور شہتير کهجور کے تنوں کے بنائے گئے ۔ فرش پر ريت اور کنکرياں بچهائی گئيں ۔الله کے رسول صلى الله عليه وسلم مہاجريں وانصار کے ساته خود پتهر اور اينٹ ڈهوتے تهے ۔ ............مسجد کے بازوميں دو گهر بهی بنائے گئے،اُس ميں سے ايک سوده بنت زمعہؓ کے ليے اوردوسرا حضرت عائشہؓ کے ليے کيونکہ اُس وقت آپ کے عقد ميں يہی د وبيوياں تهيں ۔ہم آپ کو بتاتے چليں کہ الله کے رسول صلى الله عليه وسلمکی ہجرت کے چه مہينے بعد الله کے رسول صلى الله عليه وسلماورابوبکر کے گهر والے بهی مدينہ آگئے ،جس ميں سيده عائشہؓ بهی تهيں ۔ يہاں آنے کے کچه ہی دنوں کے بعد شوال کے مہينے ميں حضرت عائشہؓ کی رخصتی ہوئی محترم قارئين! جب تک مسلمان مکہ ميں تهے ،جماعت سے نماز ادا کرنے کا منظم بندوبست نہ تها ،مدينہ آنے کے بعد جب مسجد بن گئی اور جماعت سے نماز کی ادائيگی ممکن ہوگئی ، تو اَب يہ مسئلہ پيش آتا کہ نماز کا وقت ہونے کے بعد لوگوں کو اطلاع کيسے دی جائے ؟ مشوره ہوا کہ کوئی ايسی علامت اختيار کی جائے جس سے سب کو پتہ چل جائے کہ نماز کا وقت ہوچکا ہے ۔ مختلف باتيں آئيں کسی نے کہا کہ جهنڈا نصب کردياجائے ،کسی نے کہا کہ ناقوس بجا دياجائے ....کسی نے کہا کہ پکار لگانے والا بهيج دياجائے جو نماز کے ليے پکار لگائے ۔ اِسی بيچ ايک رات عبدالله بن زيد نے خواب ميں اذا ن کے کلمات سنے او رآکر الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو خبر دی تو الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اِس کی تائيد کی او ربلالؓ کو حکم ديا جن کی آواز بلند اور سريلی تهی کہ وه اذان کہيں ۔ چنانچہ بلالؓ نے اذان دينا شروع کرديا۔ معزز قارئين! آپ جانتے ہيں کہ جو صحابہ مکہ سے آئے تهے وه اپنے گهر بار اور زمين جائيداد سب سے محروم تهے ،خالی ہاته آئے تهے ،مدينہ ميں آنے کے بعد اُن کو مددکی بيحد ضرورت تهی ،چنانچہ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے جس طرح مسجد بنائی تاکہ مسلمانوں کا ايک مرکز ہو اُسی طرح آپ صلى الله عليه وسلم نے مکہ کے مسلمانوں اور مدينہ کے مسلمانونکے بيچ بهائی چاره بهی قائم کيا ۔ يہ کل نوے لوگ تهے جن کے ليے مدنی نوے بهائيوں کو چنا گيا اور ايک مکی اورايک مدنی بهائيوں کے بيچ بهائی چارگی بنادی گئی ۔ اِسی ليے ہم مکی مسلمانوں کو مہاجر کہتے ہيں کہ انہوں نے ہجرت کی تهی اورمدنی مسلمانوں کو انصارکہتے ہيں کہ انہوں نے مسلمانوں کی ہر طرح سے مدد کی تهی ۔ انصاراورمہہاجرين نے واقعی بهائی چارے کا حق ادا کرديا۔ اِس بهائی چارے کا ايک نمونہ ديکهئے ۔حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ حضرت سعدبن ربيعؓ کے بهائی بنائے گئے تهے ،حضرت سعدؓ نے عبدالرحمن بن عوف سے کہا: انصارميں ميں سب سے زياده مالدار ہوں ،آپ ميرامال دو حصوں ميں بانٹ کر آدها لے ليں ،اورميری دو بيوياں ہيں ديکه ليں اُن ميں آپ کو جو زياده پسند ہو ميں اُسے طلاق دے دوں اور عدت گذرنے کے بعد آپ اُس سے شادی کرليں ۔ حضرت عبدالرحمنؓ نے کہا : الله پاک آپ کے مال اوراہل ميں برکت دے ۔ بس ہميں بازار کا راستہ بتاديجئے ،لوگوں نے اُنہيں بنوقينقاع کا بازار بتاديا۔ وه گهی اور پنير بيچنے اور خريدنے لگے ،يہاں تک کہ اپنے انصاری بهائی سے بے نياز ہوگئے ،ايک روز آئے تو اُن پر زردی کا اثر تها ،نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے پوچها : يہ کياہے ،انہوں نے کہا کہ ميں نے شادی کی ہے ۔پوچها:مہر کتناديا؟ کہا : سوا ايک تولہ سونا ۔آپ نے فرمايا: اولم ولو بشاة وليمہ کرو گرچہ ايک بکری ہی سہی ۔ يہی عبدالرحمن بن عوف ہيں جن کا کاروبار اِتنا ترقی کرتا ہے کہ کہتے ہيں جب ميں مڻی اُڻهاتا تو وه مير ے ليے سونا بن جاتی تهی ۔ بہرکيف اِس سے آپ اندازه لگاسکتے ہيں کہ انصارنے کس طرح آگے بڑه کر اپنے مہاجربهائيوں کی مدد کی ،پهر مہاجرين نے بهی اُس کا غلط فائده نہ اڻهايا۔ محترم قارئين! مدينہ کی دهرتی مکہ کے مقابلے ميں کچه الگ حيثيت رکهتی تهی ،مکہ ميں مسلمان پِسے ہوئے تهے ، اوراُن کے حريف صرف قريش تهے ،ليکن مدينہ ميں مسلمانوں کے بيچ مشرکين بهی تهے ،يہود بهی تهے اور کچه عيسائی بهی ۔ اوريہاں الله کے رسولصلى الله عليه وسلم کو ايک اسلامی اسڻيٹ کی بنياد رکهنی تهی ۔ اِس کے ليے الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے سب سے پہلے مسلمانوں کے ليے کچه عہدوميثاق کے قوانيں بنائے،جس کے اہم دفعات کچه يوں تهے :پہلے نمبرپرانصاراورمہاجرين باقی لوگوں کے خلاف ايک متحد امت ہوں گے ،دوسرے نمبرپرجو بهی ظالم اورباغی ہواُس کے خلاف سب لوگ ايک ہوجائيں گے چاہے اُن کی اولاد ميں سے ہی کيوں نہ ہو ،تيسرے نمبرپرمومن کافرکے بدلے قتل نہ کياجائے گا ۔چوتهے نمبرپر يہود مسلمانوں کے پيروکارہوجائيں تو وه مسلمانوں کا ايک حصہ شمار ہوں گے ۔ يہ معاہده کے چنددفعات تهے جو الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے مسلمانوں سے ليے تهے ۔.....رہے مشرکين تو اُن سے آپ نے يہ معاہده ليا کہ کوئی مشرک قريش کی جان ومال کو پناه نہ دے گا اورنہ کسی مومن کے آگے اُس کی حفاظت کے ليےُرکاوٹ بن سکے گا ۔ اِس معاہدے کے بعد اُن کی طرف سے کوئی انديشہ نہ رہا ۔.....رہے يہودتو الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اُن کے ساته بهی معاہده کيا جنکے اہم نکا ت يہ تهے پہلے نمبر پر يہود مسلمانوں کے ساته ايک امت ہوں گے ،اُن کے ليے اُن کا دين اورمسلمانوں کے ليے مسلمانوں کا دين ہوگا ،اُن کے ذمہ اُن کا خرچ ہوگا اور مسلمانو ں کے ذمہ مسلمانوں کا خرچ ۔ دوسرے نمبر پر : جو لوگ اِس معاہدے کے کسی فريق سے جنگ کريں گے يا مدينہ پر حملہ کريں گے سب کی ذمہ داری ہوگی کہ اُس کے خلاف آپس ميں مدد کريں۔ تيسرے نمبر پر : اِس معاہدے کے شرکاءکے بيچ خيرخواہی ،خيرانديشی اور نيکوکاری کا سلوک کيا جائے گا ۔ اِس معاہدے کے بعد مدينہ کے باشندے چاہے وه مسلمان ہوں....يا مشرکين ہو ں....يا يہود ہوں.... ايک وحدت بن گئے ۔ ايک اسڻيٹ قائم ہوگيا جسے ہم مدنی اسڻيٹ کہتے ہيں جس کے حاکم رسول الله صلى الله عليه وسلم تهے ۔ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے يہاں مسلمانونميں اخلاقی خوبياں پيداکرنے کی کوشش کی ۔ايثار وقربانی کا سبق سکهايا،صلہ رحمی کی تاکيد کی ،پڑوسيو ں کے ساته اچها برتاوکا حکم ديا،آپ نے يہ تعليم دی کہ “مسلمان وه ہيں جس کی زبان اور ہاته سے مسلمان محفوظ رہيں ” “ تم ميں سے کوئی شخص مومن نہيں ہوسکتا يہاں تک کہ اپنے بهائی کے ليے وہی چيز پسند کرے جو اپنے ليے پسند کرتا ہے ۔آپ صلى الله عليه وسلم لوگونکو صدقہ وخيرات پر ابهارتے ہيں اور مانگنے اور دوسروں کے سامنے ہاته پهيلانے سے منع کرتے ہيں ۔ اِ س طرح کی تعليم سے الله کے نبی صلى الله عليه وسلم نے ايسامعاشره بناديا جو تاريخ کا سب سے بہتر معاشره تها۔ محترم قارئين! مسلمان مکہ ميں 13 سال تک ستائے گئے تهے ،اپنا سب کچه خيربادکہہ کرمدينہ ميں پناه لے لی تهی ،....کيا اب مسلمان مدينہ ميں امن وسکون سے رہنے لگے تهے؟....کيا ان پر کسی طرح کاباہری دباونہ تها ،اِسے ہم جانيں گے اگلے حلقہ ميں ان شاءالله .... تب تک کے ليے اجازت ديجئے الله حافظ ۔ غزوه احد کے بعد کے حالات الحمد رب العالمين والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلين نبينا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعين وبعد جنگ احدختم ہوچکی ہے ،اِس جنگ ميں وقتی طورپر مسلمانوں کوجو نقصان ہوانبی پاک کے حکم کونہ ماننے کی بناپر ہواتها ، معمولی کوتاہی کی مسلمانوں کو بہت بهاری قيمت چکانی پڑی ،احد کے بعد کے حالات ديکهيں کہ دشمن بہت زياده جری ہو گئے تهے ،ہم اُس سلسلے ميں تين واقعات آپ کے سامنے ميں رکهيں گے جن سے آپ خوداندازه لگاسکتے ہيں کہ حالات کتنے سنگين ہوگئے تهے ۔ پہلا واقعہ :ايک دن کی بات ہے ،الله کے رسول صلى الله عليه وسلم مدينہ ميں تشريف رکهتے تهے ،عضل اورقاره کے چند لوگ آئے اور انہوں نے ذکر کياکہ ہمارے ہاں اسلام کا بہت چرچا ہے ،ليکن اسلام بتانے والا ايک بهی نہيں ہے،کياہی اچها ہوتا کہ ہمارے پاس اپنے کچه لوگونکو بهيجتے جولوگوں کو اسلام بتاتے ....آپ صلى الله عليه وسلم کو خوشی ہوئی اور آپ صلى الله عليه وسلم نے دس صحابہ کرام کو وہاں بهيجا اورعاصم بن ثابت کو اُن کا امير بناديا۔ جب صحابہ رجيع پہنچے تو اِ ن لوگوں کی خباثت کا اندازه ہوا ،اُنہوں نے غداری کی اورايک سو تيراندازوں کو اُن کے پيچهے لگاديا، کہاں دس اورکہاں ايک سو تيرانداز ،آڻه صحابہ وہيں پر شہيد کردئے گئے ،اورباقی دو کو مکہ لے کر آئے ،يہ دونوں خبيب بن عدیؓ اور زيد بن دثنہؓ تهے ۔ اِن دونوں کو مکہ لے جاکر بيچ ديا۔صفوان بن اميہ نے زيد بن دثنہؓ کو خريدا اور اُنہيں قتل کرديا اورخبيبؓ کوحارث کے بيڻوں نے خريدليا،اُنہيں کچه دنوں تک قيدرکها،اُس کے بعد مکہ والے اُن کو سولی پر چڑهانے کے ليے تنعيم لے گئے ،جب سولی پر لڻکاناچاہا تو انہوں نے کہا “مجهے دورکعت نماز ادا کرلينے دو ”۔مشرکين نے موقع ديا، آپ نے دو رکعت نماز ادا کی ، جب سلام پهير چکے تو فرمايا: الله کی قسم! اگر تم يہ نہ کہتے کہ ميں جو کچه کررہا ہوں گهبراہٹ کی وجہ سے کررہاہوں تو ميں کچه اور طول ديتا ۔ جب سولی پر بڻهاياگياتو اُس وقت آپ يہ شعر کہہ رہے تهے : ولست ابالی حين اقتل مسلما علی ای شق کان  مضجعی وذلک فی ذات الالہ وان يشاء يبارک علی اوصال شلو ممزع جب مجهے بحيثيت مسلمان مارا جارہا ہے تو کچه پروا نہيں کہ کس پہلو قتل کياجاوں گا ،يہ تو الله کی ذات کے ليے ہے ،اگر وه چاہے گا تو بوڻی بوڻی کئے ہوئے اعضاءکے ڻکڑونميں برکت نازل کرے گا ”۔ اُس کے بعد ابوسفيان نے حضرت خبيبؓ سے کہا : کياتمہيں يہ بات پسند آئے گی کہ تمہارے بدلے محمد ہمارے پاس ہوتے ،ہم اُن کی گردن مارتے اور تم اپنے اہل خانہ ميں ہوتے ،انہوں نے کہا : ہرگز نہيں ،والله مجهے تو يہ بهی گوارا نہيں کہ ميں اپنے گهروالوں ميں رہوں اور اُس کے بدلے محمدصلى الله عليه وسلمکو جہاں آپ ہيں وہيں رہتے ہوئے کانڻا چبه جائے ”۔ مشرکين نے حضرت خبيبؓ کو سولی پر لڻکا ديااور ہرطرف سے اُن کے جسم کو نيزے سے چهيدنا شروع کرديا ،ايسا ہی کرتے رہے يہاں تک کہ اُن کی روح جسم سے جدا ہوگئی ۔ دوسرا واقعہ :محترم قارئين ! اِس واقعہ کو ابهی چنددن ہی گذرے تهے کہ اِسی مہينے ميں ايک دوسرا واقعہ پيش آيا،قبيلہ کلاب کا سردار ابوبراءعامر بن مالک ....الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کی خدمت ميں آيا ،آپ نے اُسے اسلام کی دعوت دی تو اُس نے اسلام قبول تو نہ کيا ليکن دوری بهی اختيار نہ کی ،اُس نے کہا کہ اے الله کے رسول : اگرآپ اپنے ساتهيونکو نجد والوں کے پاس بهيجيں تو ممکن ہے کہ وه لوگ اسلام قبول کرليں ،آپ نے فرماياکہ : مجهے نجدوالوں سے خطره ہے ،ابوبراءنے کہا: انديشہ کی کيابات ہے وه ہماری پناه ميں ہوں گے ۔ الله کے رسول اکو جب اُس کی بات پر اعتماد ہوگيا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے اُس کے ساته اپنے ستر صحابہ کو بهيجا جو قاری اور فاضل تهے ،وه سب معونہ کے کنويں پر پہنچے ۔وہاں پڑاوڈالا اور حرام بن ملحان رضى الله عنه کو رسول اللهصلى الله عليه وسلم کا خط دے کرالله کے دشمن عامر بن طفيل کے پاس بهيجا ،اُس نے خط کو ديکها تک نہيں ،اور اُسی بيچ ايک آدمی کو اشاره کردياکہ اِس کا کام تمام کردو ،چنانچہ ايک شخص نے اُن کوپيچهے سے اِس زور سے نيزه مارا کہ وه نيزه آرپارہوگيا ،حرامؓنے خون کے فوارے بدن سے بہتے ہوئے ديکها تو بول اڻهے :الله اکبرفزت ورب الکعبة،الله اکبر رب کعبہ کی قسم ميں کامياب ہوگيا۔ محترم قارئين ! ذرا غورکريں آخر يہ کونسی کاميابی تهی ،جی ہاں! انہوں نے اپنے مقصود کو پالياتها شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن نہ مال غنيمت نہ کشور کشائی .... جباربن سلمی جس نے حرام بن ملحانؓ کو نيزه مارا تهاُس کے ذہن ميں يہی سوال گردش کرنے لگا وه سوچنے لگا: ابهی توہم نے اِسے قتل کردياہے آخر کامياب کيسے ہوگيا؟ اُ س سے بتاياگياکہ يہ مسلمانوں کی نظر ميں شہادت ہے ۔اب وه پريشان ہوگيا،بهاگابهاگا مدينہ آيااوراسلام قبول کرلی ،اِس طرح قاتل اور مقتول دونوں جنتی ڻهہرے ۔ بہرکيف الله کے دشمن عامر کے اشارے پر حضرت حرام کوشہيد کردياگيا ،اس کے بعد اُس نے دوسرے صحابہ کو شہيد کرنے کے ليے اپنے قبيلہ بنوعامر کو آواز دی ،ليکن کوئی تيارنہ ہوا ،تب اُس نے بنوُسلَيم کے تين قبيلوں عصيہ رعل اورذکوان کو آواز دی،جنہوں نے فوراً صحابہ کرام کوگهيرليا ،صحابہ کرام نے بهی اُن کا مقابلہ کيا ،مگر سب کے سب شہيد کر دئيے گئے ۔اِسی کے آس پاس ميں دو صحابی اونٹ چرارہے تهے،عمروبن اميہ ضمری اور منذربن عقبہؓ ،دونونوہاں پہنچے ،ان ميں سے منذرتو مقابلہ کرتے ہوئے شہيد ہوگئے ليکن عمروبن اميہؓ کو گرفتار کرليا گيا،ليکن وه قبيلہ مضر سے تهے اس ليے عامر نے اُن کو اپنی ماں کی طرف سے آزاد کرديا۔ عمروبن اميہ نے ہی مدينہ آکر اِس واقعے کی خبر دی ۔ محترم قارئين ! الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو بئر معونہ اور رجيع کے اِن دو واقعات سے اس قدرغم لاحق ہوا کہ آپ ايک مہينہ تک لگاتار اِن قبائل کے لوگوں پر فجر کی نماز ميں بددعا کرتے رہے ،اورغم لاحق ہوتا کيسے نہيں کہ ابهی احد ميں ستر صحابہ شہيد کئے جاچکے تهے ،اور اِدهر اَسی صحابہ کو دشمنوں نے دهوکہ دے کر شہيد کردياجو قرآن کے حافظ اور قاری تهے۔ بہرکيف ہم عرض کررہے تهے عمر وبن اميہ جنہوں نے مدينہ آکر الله کے رسول کو اِس واقعے کی خبر دی .... وه ابهی راستے ہی ميں تهے کہ بنوکلاب کے دو آدميوں کو ديکها ،سمجها کہ يہ لوگ دشمن کے آدمی ہيں،دونوں کوقتل کرديا،حالانکہ دونوں کے پاس الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کا عہد تها ،مدينہ آکر الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو يہ رپورٹ سنائی تو الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو غصہ آيا ،آپ نے فرمايا: تم نے ايسے دوآدميوں کو قتل کياہے جن کی مجهے لازماًديت دينی ہوگی ۔ سبحان الله!يہ ہے نبی رحمت کا فيصلہ، اپنے ستر صحابہ کی شہادت کوبرداشت کرلے رہے ہيں،ليکن دو آدمی کے قتل کی ديت دينے کے ليے تيار ہيں جی ہاں! يہی اسلام کی عظمت ہے جو آياہی ہے دنيا ميں انصاف قائم کرنے کے ليے ....اُس کے بعد الله کے رسول ا ديت کی رقم جمع کرنے ميں جٹ گئے ،چونکہ قبيلہ بنونضير بهی آپ کا حليف تها ،اس ليے ان کے پاس گئے کہ اِس ديت ميں وه مدد کريں .... يہاں پر ايک تيسرا واقعہ پيش آيا ....واقعہ کياتها ....قوم يہودکی سازش اور غدار ی تو مشہور ہی ہے ، حليف ہونے کے ناطے ديت ميں اُن کے ليے بهی ضروری تها کہ مدد کريں ،ليکن انہوں نے کياکيا ....؟ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم سے کہا ابوالقاسم ! آپ يہاں تشريف رکهئے ،ابهی ہم آپ کی ضرورت پوری کئے ديتے ہيں ۔ آپ اُن کے ايک گهر کی ديوار سے ڻيک لگاکر بيڻه گئے،يہودی آپس ميں اکڻها ہوئے اورطے کياکہ ايک آدمی چکی اڻهاکر اوپر لے جائے اورمحمد (صلى الله عليه وسلم) کے سر پر گرادے ،تاکہ اِن کا صفاياہی ہوجائے ،اُسی وقت جبريل امين آئے اورآپ کو يہودکے ارادے سے باخبرکيا،آپ تيزی سے اڻهے اور مدينہ چلے گئے ۔ مدينہ آنے کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم نے بنونضير کے نام ايک نوڻس بهيجا کہ دس دن ميں پورا مدينہ خالی کردو ،اگر نہيں کرتے تو سب کی گردن ماردی جائے گی ۔ يہ خبر سنتے ہی سب کے رونگنے کهڑے ہوگئے ،اورمدينہ خالی کرنے کی تياری کرنے لگے ،ليکن اُسی بيچ منافقين کے سردارعبدالله بن اُبی نے اُن کو اُکساياکہ تم ہمت کيونہارتے ہو،ڈرومت ،ڈڻے رہو،ہم سب تمہارے ساته ہيں ،اب کياتها؟انہوں نے الله کے رسول ا کو کہلا بهيجا کہ آپ کو جو کرنا ہے کرليجئے ہم نہيں نکل سکتے ۔ يہ پيغام جب الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو ملا تو آپ نے صحابہ کو جمع کيا ،نکلے اور اُن کا محاصره کرليا ،محاصره کے بعد عبدالله بن ابی نے ہاته کهينچ ليا،بنوقريظہ بهی الگ تهلگ ہوگئے ،اب بنو نضير اکيلے ره گئے ،محاصره چه رات يا پندره رات رہا ،اِس دوران الله پاک نے اُن کے دلونميں رعب ڈال ديا،اُن کی ہمت پست ہوگئی ۔چنانچہ انہوننے الله کے رسول اکو کہلوابهيجا کہ ہم مدينے سے نکلنے کے ليے تيار ہيں ،آپ رضامند ہوگئے ، اِس طرح سب خيبر ميں جاکر بس گئے ۔ محترم قارئين !انہيں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہيں ، اگلے حلقہ ميں کل ڻهيک اِسی وقت ان شا ءالله سيرت طيبہ کی تازه جهلکيوں کے ساته پهر مليں گے ۔ تب تک کے ليے اجازت ديجئے ۔ الله حافظ غزوه خندق – غزوه بنوقريظه الحمد رب العالمين والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلين نبينا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعين وبعد الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ہجرت کے چوتهے سال اور اُس سے پہلے مدينہ اوراُس کے آس پاس ميں جو حکيمانہ اقدامات کيے تهے، اِس کی وجہ سے امن وامان قائم ہونے لگاتها، اوريہ اشارے مل رہے تهے کہ اب فتنے قائم نہ ہوں گے، بنونضير کو خيبر جلاوطن کرنے کے بعد ڈيڑه سال تک کوئی واقعہ پيش نہ آيا، ليکن يہوں جن کو عيسی عليہ السلام نے سانپ اور سانپوں کی اولاد کہا ہے يہ کب مسلمانوں کو امن وامان سے رہنے دينے والے تهے۔ خيبرميں پہنچنے کے بعد سازش شروع کردی۔ يہود کے بيس ليڈر قريش کے پاس گئے اور اُن کو اُکسايا کہ تم لوگ محمد سے جنگ کرو اور ہم تمہارا ساته دينے کے ليے تيار ہيں، اُس کے بعد يہ لوگ بنو غطفان کے پاس آئے اوراِن کو بهی تيار کرليا، اُس کے بعد بقيہ عرب قبيلوں ميں گهوم گهوم کر لوگوں کو جنگ پر آماده کرليا۔ اِس طرح عرب کے سارے قبائل کو ملاکر مدينہ پر ايک بار دهاوا بولنے کا پلان بناليا۔ پروگرام کے مطابق سارے قبائل اکڻها ہوگئے، دس ہزار کی تعداد ميں تهے اور سب کا يہی نعره تها کہ اسلام اورمسلمانوں کو مڻادينا ہے ۔ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو جب اِس سازش کا پتہ چلا توآپ نے صحابہ کو اکڻها کيا اوراُن سے مشوره ليا، سلمان فارسیؓ نے مشوره ديا کہ ہم اپنے گرد خندق کهود ليں کہ دشمن ہم تک نہ پہنچ سکيں گے، يہ تجويز بہت اچهی تهی، آپ صلى الله عليه وسلم نے اور سارے صحابہ نے اِسے پسند فرمايا اور خندق کهودنے لگے، ہر دس آدمی کو چاليس ہاته حندق کهودنے کا کام سونپ ديا گيا تها، الله کے رسول صلى الله عليه وسلم خود خندق کهودنے ميں مسلمانوں کا ساته دے رہے تهے ، ايک طرف مسلمان محنت کا کام کر رہے تهے تو دوسری طرف بهوک کی شدت سے اُن کی حالت خراب ہورہی تهی ،ايک بار ابوطلحہ نے الله کے رسولصلى الله عليه وسلم کے پاس بهوک کی شکايت کی اور اپنا پيٹ کهول کرايک پتهر دکهلاياتو رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اپنا پيٹ کهول کر دو پتهر دکهلائے ۔حضرت جابرؓ کو ايک روز ديکها نہ گيا تو انہوں نے بکری کا ايک بچہ ذبح کيا اوراُن کی بيوی نے ،ڈهائی کيلو جو پيسا ،پهر رسول الله صلى الله عليه وسلم کو تنہائی ميں کہا کہ اپنے چند ساتهيوں کو لے کر چليں اورہمارے پاس کچه تناول فرمائيں، ليکن الله کے رسول صلى الله عليه وسلمنے تمام اہل خندق کو ساته ميں لے ليا جن کی تعداد ايک ہزار تهی ، جابرپريشان اور ادهر بيوی بهی پريشان کہ کهانا چند آدميوں کے ليے بنا اور اِتنے لوگ آگئے، ليکن لے کرتو رسول الله آئے ہيں نا .... اطمينان ہوا ، الله کے رسول سب کو کهلاتے گئے ،ايک ہزار لوگوں نے پيٹ بهر کر کهاليا،اورگوشت اور آڻا ويسے ہی برقرار رہا ۔ يہ تها معجزه نبی پاک صلى الله عليه وسلم کا .... مسلمانوں نے خندق کهودنے کا کام مسلسل جاری رکها،يہاں تک کہ خندق کی کهدائی مکمل ہوگئی،ادهر ابوسفيان اوراُس کے پيروکار چار ہزار کا لشکر لے کر آئے اور دوسری طرف غطفان اور اُن کے پيروکار چه ہزار کا لشکر لے کر آگئے ،دس ہزار کی تعداد ميں فوج مسلمانوں کو مڻانے کے ليے آئی تهی ....دهيرے دهيرے يہ لوگ مدينہ کے قريب پہنچے ،ليکن يہ ديکه کر دنگ ره گئے کہ اُن کے اورمسلمانوں کے درميان خندق حائل ہے ،يہ ديکه کر ابوسفيان نے بے ساختہ کہا: يہ ايسی چال ہے جس کو عرب جانتے ہی نہيں ۔ غصے سے خندق کا چکر کاڻنے لگے ،وه ايسی جگہ ميں تلاش ميں تهے جہاں سے خندق پار کرسکيں ليکن مسلمان اُن پر تير برساکر اُنہيں خندق کے قريب آنے نہيں دے رہے تهے ،تاکہ اُس ميں وه کو دبهی نہ سکيں اور نہ مڻی ڈال کر برابر کر سکيں ۔مرتے کيا نہ کرتے پورے مدينہ کا محاصره کرليا، مسلمان بهی اُ ن پر ہر طرف سے تير برسارہے تهے ،مشرکين نے کئی بار کوشش کی کہ گهس جائيں اور پورا پورا دن لگاديا،ليکن کامياب نہ ہوسکے ،اورادهر مسلمان بهی دفاع ميں ڈڻے رہے ،يہاں تک کہ مسلمانوں کی کئی نمازيں بے وقت ہوگئيں ....ايسے وقت ميں الله کے رسول نے دشمنوں کو بددعا دی : ملا الله بيوتهم وقبورهم نارا کما حبسونا وشغلونا عن الصلاة الوسطی ”الله اُن کے گهرونکو اور ان کی قبرونکو آگ سے بهر دے کہ انہوں نے ہميں نماز عصر کی ادائيگی سے مشغول کر ديا ۔بہرکيف مسلمانوں کا مورچہ مدينہ کے شمال ميں تها اوربنو قريظہ مدينہ کے جنوب ميں تهے ،اب تک بنوقريظہ مسلمانوں کے ساته تهے کيونکہ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کے ساته اُن کا معاہده تها ،جب بنوقريظہ نے دس ہزار کا لشکر ديکها تو مرعوب ہوگيا،اُسی طرح بنونضير کے سردار حيی بن اخطب نے باضابطہ بنوقريظہ کے پاس جاکر ان کو اُکسايااورعہد توڑنے پر آماده کيا کہ دونوں يہود تهے ،اِس طرح وه عہد شکنی کر بيڻهے ۔ بنوقريظہ اور مسلمان عورتوں اور بچوں کے بيچ کوئی رکاوٹ نہ تهی ،الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو اِس کی خبر ملی تو بہت پريشان ہوئے ،صحابہ کرام کی بهی پريشانی دوگنی ہوگئی ،الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فوراً بنوقريظہ کی طرف تين سو آدميوں کو بهيجا کہ کم سے کم عورتوں اور بچوں کی حفاظت ہو سکے ،جب صحابہ بنوقريظہ کے پاس گئے تو انہوں نے گالياں بکنی شروع کرديں ،الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کی اہانت کرنے لگے اورڈهڻائی سے جواب ديا کہ ہمارے اور محمد کے بيچ کو ئی معاہده نہيں ۔ اب مسلمانوں کی جو حالت ہوئی تهی قرآن نے اُس کا نقشہ کهينچا ہے :واذ زاغت الابصار وبلغت القلوب الحناجرَ وتظنون با☆⠆ الظنونا ، هنالک ابتلی المومنون وُزلزلواِزلزالا شدیدا جب نگاہيں کج ہوگئيں ،دل حلق کو آگئے ،اور تم لوگ الله کے ساته طرح طرح کے گمان کرنے لگے ،اُس وقت مومنين کو آزماياگيا اوراُنہيں شدت سے جهنجهوڑدياگيا ۔يہاں پر نفاق بهی کهل کر بولنے لگا: منافقين نے کہا: محمدتو ہم سے وعده کرتے تهے کہ ہم قيصروکسری کے خزانے کهائيں گے اور يہاں يہ حالت ہے کہ قضائے حاجت کے ليے نکلنے ميں بهی جان کی خير نہيں ۔ بہرحال جب الله کے رسول صلى الله عليه وسلمکو بنوقريظہ کی غداری کی خبر ملی تو آپ کو بہت قلق ہوا ۔ آپ نے اپنا چہره اور سر کپڑے سے ڈهک ليا اور دير تکِچت ليڻے رہے ،پهر الله اکبر کہتے ہوئے اُڻهے اور مسلمانوں کو فتح ونصرت کی خوش خبری دی ۔ ادهر الله پاک نے احزاب کے لوگوں ميں پهوٹ ڈال ديا ،ہر ايک دوسرے کے تئيں شک ميں پڑگئے ،مسلمان دعا کررہے تهے : اللهم استر عوراتنا وآمن روعاتنا اے الله ہماری پرده پوشی فرمااور ہميں خطرات سے مامون کردے ۔ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم بهی دعا فرمارہے تهے ،اللهم منزَل الکتاب ،سريع الحساب ،اهزم الاحزاب ،اللهم اهزمهم وزلزلهم ”اے الله تو اُنہيں شکست دے دے اور جهنجهوڑ کر رکه دے ۔الله پاکصلى الله عليه وسلم نے دعا قبول کی اورمشرکين پر سخت ہواوں اور فرشتوں کا لشکر بهيج ديا جس نے اُن کو ہلا ڈالا ،اُن کے دلونميں رعب ڈال ديا،اُن کی ہانڈياں اُلٹ ديں ، اُن کے خيموں کواکهاڑ پهينکا ،اور سردی نے الگ مارماری ، اِس طرح اُن کی کوئی چيز ايک جگہ نہ ر ه سکی ۔ چنانچہ انہوں نے کوچ کرنے کی تياری شروع کردی ۔ يہ جنگ مدينہ کو تباه کرنے کے ليے سب سے بڑی کوشش تهی ۔ کہ سارے قبائل اسلام کے خلاف اکڻها ہوگئے تهے ۔ ليکن پهر بهی ہار گئے ۔ غزوه بدرکے بعد الحمد رب العالمين والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلين نبينا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعين وبعد جنگ بدرميں مسلمانوں کی جيت کے بعد کا واقعہ ہے ، قريش کے دو شيطان عميربن وہب الجمحی اور صفوان بن اميہ حطيم ميں بيڻهے بدر کے مقتولين کے بارے ميں بات کررہے تهے، صفوان نے کہا : الله کی قسم ايسی ذلت کے بعد جينے کا کوئی مزه نہيں ۔ عمير نے ہاں ميں ہاں ملايااورکہا : بالکل تم سچ کہتے ہو ،ديکهو! والله !اگرميرے پاس قرض نہ ہوتا جس کی ادائيگی کے ليے ميرے پاس کچه نہيں اوراہل وعيال نہ ہوتے ، جن کے بارے ميں انديشہ ہے کہ ميرے بعد ضائع ہوجائيں گے توميں سوار ہوکر محمد کے پاس جاتا اوراُس کاکام تمام کرديتا ۔ اورويسے بهی ميرے وہاں جانے کی ايک وجہ بهی بن سکتی ہے کہ ميرا بيڻا اُن کے ہاں قيد ہے ۔ خبيث صفوان نے اُسی وقت فوراً کہا کہ ہم تيرے قرض کی ذمہ داری ليتے ہيں اور تمہارے اہل وعيال کی بهی ذمہ داری ليتے ہيں ،جاومنصوبے کو نافذ کرکے آوعمير نے کہا:اچها تو ڻهيک ہے ،بس معاملے کو رازميں رکهنا ،کسی تيسرے کو معلوم نہ ہونے پائے ۔ صفوان نے کہا: ڻهيک ہے ميں ايساہی کروں گا۔ عمير نے تلوار کو تيز کرايا،زہرآلودکرائی اورمکہ سے روانہ ہوگيا،مدينہ پہنچا اورمسجد نبوی کے دروازے پر اونڻنی بڻها ہی رہا تها کہ عمر فاروقؓ نے اُسے ديکه ليا ۔سوچا: يہ الله کا دشمن کسی بُرے اراده سے آياہے ،فوراً الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کے پاس گئے اور خبردياکہ عمير تلوارلڻکائے آيا ہے ، آپ نے فرمايا: اُسے ميرے پاس لاو۔ عمر فاروقؓ نے اُس کی تلوار کو اُس کے گلے کے پاس سے تهامے ہوئے اُسے الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کی خدمت ميں پيش کيا ۔الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے جب ديکها کہ عمراُس کی تلوار کو تهامے ہوئے ہيں تو فرمايا: عمر ! اِسے چهوڑ دو ،اور عمير !تم قريب آواُس نے قريب آکر کہا : صباح الخير ، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: الله پاک نے ہميں ايسے تحيہ سے نوازا ہے جو تمہارے تحيہ سے بہتر ہے ، يعنی سلام ۔ اُس کے بعد آپ نے پوچها: اچها بتاوعمير ! تم کيونآئے ہو، اُس نے کہا : يہ قيدی جو آپ کے قبضے ميں ہے اُسی کے ليے آيا ہوں،آپ لوگ اُن پر احسان فرمائيں ۔ پوچها: توپهريہ تلوارتمہاری گردن ميں کيوں لڻکی ہوئی ہے ؟ اُس نے کہا: الله اِن تلواروں کا بُرا کرے ،يہ کب ہميں کام آئی ہيں ؟ آپ نے فرمايا: سچ سچ بتاو،کيوں آئے ہو؟ اُس نے کہا: بس اِسی قيدی کے ليے آيا ہوں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: سچ سچ بتاوکيا يہ حقيقت نہيں کہ تم اور صفوان حطيم ميں بيڻهے بد ر کے مقتولين کے بارے ميں باتيں کررہے تهے، تم نے کہا کہ اگر مجه پر قرض نہ ہوتا اور اہل وعيال کا انديشہ نہ ہوتا تو ميں يہاں سے جاتا اورمحمد کو قتل کرديتا ۔اُس پر صفوان نے تمہارے قرض اور اہل وعيال کی ذمہ داری لی بشرطيکہ تم مجهے قتل کردو ،ليکن ياد رکهو ! الله ميرے اور تمہارے بيچ حائل ہے ۔ عمير يہ سن کر حيران ره گيا،اوراُسی وقت بول اُڻها اشهد ان لا الہ الا الله واشهد ان محمدا رسول الله ۔ اُس نے کہا کہ الله کا شکر ہے کہ اُس نے مجهے دين کی ہدايت دی اورمجهے يہاں ہانک کر لے آيا۔ الله اکبر ديکها ! کيسے کيسے لوگوں کو ہدايت ملتی ہے ۔ بہرکيف الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے صحابہ سے فرمايا: ....اِسے دين سکهاو،قرآن پڑهاو اوراِس کے قيدی کو آزاد کردو۔ ادهر صفوان لوگوں سے کہتا پهرتا تها کہ چند دنوں ميں تمہيں ايسی خبر سناوں گا کہ تمہاری آنکهيں ڻهنڈی ہوجائيں گی ۔ بالآخر اُسے کسی نے بتا ديا کہ عمير مسلمان ہوچکا ہے، يہ سن کر صفوان نے قسم کهائی کہ اُس سے کبهی بات نہ کرے گا ۔ عمير اسلام سيکه کر مکہ آئے اور اسلام کی تبليغ مکہ ميں شروع کردی، اُن کے ہاته پر بہت سے لوگ مسلمان ہوئے ۔ محترم قارئين! جنگ بدر کے بعد ايک طرف قريش کے سينوں ميں انتقام اور بدلہ کا لاوا پک رہا تها ،جس کی واضح مثال يہ واقعہ ہے،کہ کيسے نبی رحمت کے قتل کے اراده سے نکلے تهے ليکن اِسلام کے ہوکر ره گئے ، ايک طرف تو يہ دشمنی تهی تو دوسری طرف بدر کی جنگ نے مسلمانوں کی دهاک بهی بڻهادی تهی، اِسی ليے مدينہ ميں چند يہوديوں نے اپنا مفاد حاصل کرنے کے اراده سے دکهلاوے کے ليے اسلام قبول کرليا جس ميں عبدالله بن ابی اوراُس کی جماعت کے لوگ تهے ....مدينہ ميں يہوديوں کے تين قبيلے آباد تهے ، اُن ميں سے ايک قبيلہ بنوقينقاع تها، الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے مدينہ ميں قدم رکهنے کے بعد يہوديوں سے بهی معاہده کيا تها ليکن سب سے پہلے بنوقينقاع والوں نے عہد شکنی کی، بدر کے بعد مسلمانوں سے کهل کر دشمنی کا اظہار کرنے لگے، مسلمانوں ميں خلفشار مچاتے ،جو مسلمان اُن کے بازارميں جاتا اُن کا مذاق کرتے ، انہيں تکليف پہنچاتے يہاں تک کہ مسلمان عورتوں سے بهی چهيڑ خوانی شروع کردی ۔الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے بنوقينقاع کے بازارميں يہود کو جمع کيا او راُنہيں نصيحت کی، معاہدے کی ياد دہانی کرائی اور امن قائم رکهنے کی تاکيد کی تو اُلڻے الله کے رسول صلى الله عليه وسلم پر برس پڑے ، کہنے لگے : محمد! آپ خودفريبی ميں مبتلا نہ ہوں، قريش جيسے اناڑی لوگوں سے جنگ ميں ميدان جيت لينا کوئی کمال کی بات نہيں ،اگر ہم سے جنگ ہوگئی تو پتہ چل جائے گا کہ آپ کتنے پانی ميں ہيں ۔ بنو قينقاع کے جواب کا صاف صاف مطلب تها اعلان جنگ، ليکن الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے صبر سے کام ليا اوروہاں سے چلے آئے ۔ ايک دن کی بات ہے، ايک عرب عورت بنوقينقاع کے بازارميں کچه سامان بيچ کر کسی ضرورت کے ليے ايک سنار کے پاس بيڻهی، وه يہودی تها، يہوديوں نے اُس کا چہره کهلوانا چاہا، مگر اُس نے انکار کرديا۔ اِس پر اُس يہودی سنار نے چپکے سے اُس کے کپڑے کا نچلا حصہ پچهلی طرف بانده ديا۔ اور اُسے کچه خبر نہ ہوئی ،جب وه اُڻهی تو بے پرده ہوگئی ، يہ ديکه کر يہوديوں نے خوب قہقہہ لگايا،اِس پر اُس عورت نے چينخ وپکار لگائی جسے سن کر ايک مسلمان نے اُس سنار پر حملہ کرديااور اُسے مارڈالا ۔ جواب ميں يہوديوں نے بهی اُس پر حملہ کرکے اُسے مارڈالا، دونوں طرف سے شور اور ہنگامہ ہوا ، نتيجہ کے طور پر دونوں فريق ميں بلوه ہوگيا اب رسول الله ا نے اُن کا محاصره فرماليا، يہ دو ہجری 15شوال ہفتہ کا دن تها ۔ پندره دن گذرگئے تهے کہ ذی القعده کی چاند رات انہوں نے ہتهيارڈال ديا۔ اور رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اُنہيں اذرعات شام کی طرف جلاوطن کرديا۔ محترم قارئين !بنوقينقاع کا فتنہ تو ختم ہوگياتها ليکن دوسری طرف ايک دوسرے يہودی کعب بن اشرف کا فتنہ ابهی باقی تها ....کعب بن اشرف اُن يہوديوں ميں سے تها جن سے الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے معاہده کيا تها ،ليکن اُس نے معاہده شکنی کی ،رسول الله صلى الله عليه وسلم اور صحابہ کرام کو گالياں ديتا ،اورمسلمان عورتوں کے متعلق غزليہ اشعار کہتا تها،جب بدر ميں قريش شکست کهاگئے تو قريش کو اُکسانا شروع کرديا، باضابطہ وه مکہ گيا، قريش کے ليڈروں کی غيرت کو جگايا،اُن کی تعريف کی ،اورانہيں مسلمانوں سے جنگ کرنے پر آماده کيا، يہ بهی کہا کہ تم تو مسلمانوں سے زياده ہدايت پر ہو ، اُن کا جلد صفاياکرو، اِس طرح جب اُس کی شرارت ميں آئے دن اضافہ ہونے لگا تو ايک روز الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے صحابہ سے فرمايا: کون ہے جو کعب بن اشرف سے نمڻے ، چنانچہ چند صحابہ نے مل کر اُس کا کام تمام کرديا ۔ ايک اور واقعہ جنگ بدر کے بعد کا ہے ....ابوسفيان جو قريش کا سرکرده ليڈر تها .... اُس نے بدر کی جنگ ميں ہارنے کے بعد يہ نذر مانی تهی کہ جب تک محمد سے جنگ نہ کرلوں گا ہمارے سر کو پانی نہ چهوئے گا ،چنانچہ وه دو سو سواروں کے ساته نکلا ،اورمدينہ کے قريب “عريض ” نامی ايک جگہ پر چهاپا مارا،کهجورکے کچه درخت کاٹ دئيے، کهيتوں کو جلاديا،اور دو آدميوں کو قتل کرکے بهاگ نکلا ۔ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو اِس کی خبر بهی نہ ہوئی تهی ، جب پتہ چلا تو الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اُن کا پيچها کيا،جب تک وه نکل گئے تهے، اپنا بوجه ہلکا کرنے کے ليے انہوں نے ستو اور توشے جو اُن کے ساته تهے راستے ميں پهينک ديئے تهے ۔ اورسويق عربی زبان ميں ستو کو کہا جاتا ہے ، اِسی ليے اِس غزوه کو غزوه سويق کہتے ہيں ۔ محترم قارئين ! انہيں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہيں ، اِن شاءالله کل ڻهيک اِسی وقت سيرت طيبہ کی تازه جهلکيوں کے ساته پهرمليں گے، تب تک کے ليے اجازت ديجئے ۔ الله حافظ غزوه احد وحمراء الاسد الحمد رب العالمين والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلين نبينا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعين وبعد غزوه احد ....وه غزوه جس کے تعلق سے سوره آل عمران ميں 58 آيتيں اُتريں،.... وه غزوه جس سے مسلمانوں نے سيکها کہ جب پريشانياں آتی ہيں تو اُس ميں مومنوں اورمنافقوں کی تميز ہوجاتی ہے، .... وه غزوه جس ميں محبت رسول کے مختلف نمونے ديکهنے کو ملے، ....وه غزوه جس نے يہ سبق ديا کہ گناه شکست کی بنيادی وجہ ہے .... جی ہاں يہ ہے غزوه احد ........ ہجرت کا تيسرا سال ہے اور شوال کامہينہ ....جنگ بدر کی شکست کا بدلہ لينے کے ليے قريش کا لشکر احد کے مقام پر پہنچ چکا ہے ،تين ہزار فوجی ہيں ،تين سو اونٹ ہے ، دو سوگهوڑے ہيں اور سات سو زرہيں ہيں،فوج کے ساته عورتيں بهی ہيں جو لشکر ميں بہادری پيدا کرنے کے ليے آئی ہوئی ہيں ،سپہ سالار ابوسفيان ہے ۔ ادهر الله کے رسول صلى الله عليه وسلمکو لشکر کے آنے سے ايک ہفتہ پہلے خبر مل چکی تهی ، آپ نے لوگوں سے مشوره کيا ،اور عصرکی نماز کے بعد آپ نے جبل احد کا رخ کيا، شوط نامی جگہ پر آئے تو عبدالله بن ابی نامی شخص نے بغاوت کی ....جی ہاں وہی عبدالله بن ابی جو منافق تها ....اوراپنی چالبازی سے مسلمانوں کی ہمت پست کرنا چاہتا تها ۔ چنانچہ اُس نے اپنے تين سو ساتهيوں کو لے کر واپس پلٹ گيا ، مسلمانوں کی تعداد پہلے ايک ہزار تهی ، اب سات سو باقی بچ گئے تهے ۔ آپ صلى الله عليه وسلم اپنے صحابہ کے ساته احد پہاڑی کی گهاڻی ميں اُترے اوريہيں لشکر کو مرتب فرمايا، حضرت عبدالله بن جبيرانصاریؓ کے کمان ميں پچاس تيراندازوں کو مقررفرمايا اور انہيں تاکيد کردی کہ مسلمان چاہے فتحياب ہوں چاہے شکست کهائيں تمہيں اپنی جگہ سے ڻس سے مس نہيں ہونا ہے ۔ مشرکين بهی پوری تياری کے ساته ميدان جنگ ميں آچکے تهے ،جب دونوں لشکر آمنے سامنے آگئے تو قريش کی طرف سے طلحہ بن ابی طلحہ نمودار ہوا اورمقابلے کی دعوت دی ،جواب ميں حضرت زبير بن عوامؓ آگے آئے، شير کی طرح جست لگائی، اُسے اپنی گرفت ميں لے ليا ،زمين پر کود گئے اور اُسے تلوار سے ذبح کر ديا، اُس کے بعد ہر طرف جنگ کے شعلے بهڑک اُڻهے ۔ سارے مسلمان جوانمردی اور بہادری کا مظاہره کر رہے تهے ،اُس دن ابودجانہؓ اور حمزهؓ نے ريکارڈ قائم کيا ۔ جنگ زوروں پرتهی .... ايک کالا کلوڻا حبشی “جسے وحشی کے نام سے پکارتے تهے ،کسی ايک شخص کی تلاش ميں ہے ، وه جنگ کرنے نہيں آيا ہے بلکہ آزادی حاصل کرنے آيا ہے ،اُس کے آقا نے اُس سے يہی وعده کياتها کہ احد کے دن اگر تونے حمزه کو قتل کردياتو تجهے آزاد کردوں گا ،چنانچہ اُس کی نگاه ڻکی تهی تو سيدنا حمزهؓ پر.... چنانچہ وحشی چڻان کی اوٹ ميں چهپ کر حضرت حمزه کی تاک ميں بيڻه گيا ،جب وحشی نے حضرت حمزه کو ديکها تو فوراً اُن کی طرف نيزے کا رخ کيا اور اچهال ديا ۔اس طرح حضرت حمزه شہيد ہوگئے ۔ شروع ميں ميدان مسلمانوں کے ہاته رہا، مشرکين شکست کهاکر بهاگنے لگے، جوش دلانے والی عورتيں بهی بهاگيں، مسلمان انہيں مار بهی رہے تهے اورمال غنيمت بهی سميٹ رہے تهے، ليکن عين اُسی موقع پر تيراندازوں نے بہت فاش غلطی کی ،الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ہرحالت ميں اُن کو وہيں جمے رہنے کے ليے کہا تها ، چاہے ميدان مسلمانوں کے ہاته رہے يا کافروں کے ....بات بالکل واضح تهی ، ليکن غنيمت کے چکر ميں اُن کے چاليس آدمی پہاڑ سے نيچے اُتر آئے، خالد بن وليد....جو ابهی اسلام قبول نہيں کئے تهے، انہوں نے موقع کو غنيمت جانا اورپہاڑ کی طرف سے حملہ کرکے اُن دس آدميوں کا صفايا کرديا۔ پهر پہاڑ کے پيچهے سے آکر مسلمانوں کی پشت پر آگئے ۔........الله کے رسول صلى الله عليه وسلم ايک جگہ تشريف فرما تهے ،آپ کے ساته سات انصار اور دو مہاجرين تهے، جب آپ نے پہاڑکے پيچهے سے خالد کی فوج کو نکلتے ديکها تو مسلمانوں کو بلند آواز سے پُکارا : “الله کے بندو ! ميری طرف آو ”۔ اِس آواز کو مسلمانوں سے پہلے مشرکين نے سن ليا جو آپ سے زياده قريب تهے، اُن کے ايک دستے نے تيزی سے اُپ صلى الله عليه وسلم کا رخ کيا کہ مسلمانوں کے آنے سے پہلے آپ صلى الله عليه وسلم کا کام تمام کردے اس موقع پر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: من يردهم عنی ولہ الجنة کون ہے جو اُن کو ہم سے دور کرے اور اُس کے ليے جنت ہے ۔ اِس پر ايک انصاری آگے آئے اور اُن سے لڑتے ہوئے شہيد ہوگئے ،آپ نے پهر يہی فرمايا: کون ہے جو اُن کو ہم سے دور کرے اوراُ س کے ليے جنت ہے ۔ اب ايک دوسرے صحابی آگے آئے ، اُن کو پيچهے دهکيلتے رہے اورمقابلہ کرتے رہے،يہاں تک کہ شہيد ہوگئے ۔ پهر تيسرے نے ،پهر چوتهے نے....يہاں تک کہ ساتوں انصاری الله کے رسول کی حفاظت ميں شہيد ہوگئے۔ سب اپنا سينہ سامنے کرديا کرتے تهے کہ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم دشمنوں کے تير سے محفوظ رہيں، اِس طرح ساتوں کے سينے چهلنی ہوگئے ليکن رسول الله کو نقصان پہنچنے نہ ديا ۔ الله کے رسولصلى الله عليه وسلم کے پاس اب صرف دو آدمی بچ گئے تهے ايک طلحہ بن عبيدالله دوسرے سعدبن ابی وقاصؓ ....دونوں بار بار تير چلا رہے تهے، ليکن دشمن کی تعداد زياده تهی، مشرکين نے حملے کا پوراُرخ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کی طرف کرلياتها ، الله کے نبی صلى الله عليه وسلم پر پتهر پهينک رہے تهے،ابن قميئہ کے پتهر سے نبی پاک کی پيشانی زخمی ہوگئی، ابن ہشام کے پتهر سے آپ صلى الله عليه وسلم کا بازو زخمی ہوگيا، عتبہ کے پتهر سے نبی پاک کے چار دانت ڻوٹ گئے، پهر آپ ايک غار ميں گرگئے، خبر عام ہوگئی کہ الله کے رسولصلى الله عليه وسلم شہيد کرديئے گئے۔ ليکن پهر کچه دير کے بعد مسلمان پلڻنا شروع ہوگئے، البتہ تيراندازوں کی غلطی سے مسلمانوں کا بهاری نقصان ہوا۔ ........اِس جنگ ميں مشرکين کے22 يا 37 لوگ مارے گئے جبکہ ستر صحابہ شہيد ہوئے، شہيدوں ميں ايک لاش ايسی بهی تهی جس سے پانی ڻپک رہا تها ....جی ہاں پانی ڻپک رہا تها ....کيوں؟ اِس ليے کہ فرشتوں نے اُسے غسل دياتها، يہ ايک نوشہ کی لاش تهی جو نئی نئی شادی کئے تهے ،اوربيوی کے ساته ہی تهے کہ جنگ کی پکارہوئی ، غسل کرنے کا موقع بهی نہ مل سکا، بيوی کو چهوڑ کر ميدان جنگ ميں چلے گئے اور لڑتے ہوئے شہيد ہوئے ، يہ حنظلہؓ ہيں جن کو غسيل الملائکہ کہا جاتا ہے ۔ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے سارے شہداء کو غسل اور نمازکے بغير اُن کے لباس کے اندرہی وہيں ميدان احدميں دفن کرديا۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے شہدا کے دفن سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ کرام کے ساته مدينہ کا رخ کيا، راستے ميں کچه عورتيں مليں جن کے رشتے دار شہيد ہوگئے تهے، بنو دينار کی ايک خاتون بهی آئيں جس کے شوہر ،بهائی اور باپ تينوں شہيد ہوگئے تهے ،جب اُنہيں اُن لوگوں کی شہادت کی خبردی گئی تو کہنے لگيں پہلے بتاو رسول الله کا کيا ہوا ؟ لوگوں نے کہا: الحمد تم جيسا چاہتی ہو ويسے ہی ہيں ۔ خاتون نے کہا : ذرا مجهے آپ کو دکهلادو ۔ لوگوں نے اشاره کيا کہ يہ ہيں رسول الله صلى الله عليه وسلم ۔ جب اُن کی نظر آپ صلى الله عليه وسلم پر پڑی تو بے ساختہ پکار اُڻهيں کل مصيبة بعدک جلل “آپ کے بعد ہر مصيبت ہيچ ہے ”۔ محترم قارئين ! يہ ہے غزوه احد کی ہلکی سی جهلک ، جس ميں آپ نے ديکها کہ صحابہ کرام نے الله کے نبی صلى الله عليه وسلم سے کيسی محبت کا ثبوت ديا ،آپ کی حفاظت کے ليے اپنی جانيں گنوابيڻهيں ، اِس غزوے سے ہميں يہ بهی سبق ملتا ہے کہ گناه اور نافرمانی ناکامی کا بنيادی سبب ہے ،پچاس تيراندازوں کو کهلے لفظوں ميں تاکيد کردی گئی تهی کہ کاميابی وناکامی ہر حالت ميں اپنی جگہ ڈڻے رہنا ،ليکن نافرمانی کی بنياد پر جيتا ہوا ميدان ہاته سے جاتا رہا ،جس ميں درس ہے دنيا کے مسلمانوں کے ليے کہ الله اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرکے وه کبهی بهی اپنے دشمنوں پر فتح حاصل نہيں کرسکتے ،ليکن اِس جنگ کوکفار کی جيت کانام نہيں دے سکتے ، ہاں!غيرفيصلہ کن جنگ کہہ سکتے ہيں،جس ميں نہ مسلمانوں کی فتح ہوئی نہ کافروں کی....اِس غزوے ميں عام لوگوں کے ساته آپ صلى الله عليه وسلم کی رحمت وشفقت بهی جهلکتی ہے ، ظالموں نے آپ کو خون آلود کردياہوا ہے،ليکن پهر بهی اُن کے حق ميں دعائے خير ہی فرمارہے ہيں: اللهم اهدقومی فانهم لا يعلمون “اے الله ميری قوم کو ہدايت دے يہ جانتی نہيں ہے ”۔جی ہاں!اگرجانتے توخون آلودنہ کرتے۔ احد کی جنگ ختم ہوچکی ہے ،مسلمان احدسے واپس ہوچکے ہيں،اِس ميں وقتی طورپر مسلمانونکو نقصان ضرورہوااوريہ نقصان بهی اُن کی کمزوری کی بناپر نہيں بلکہ نبی پاک کی مخالفت کی بناپر ہواتها کہ تيرانداز اپنی جگہ سے ہٹ گئے تهے، حالانکہ الله کے نبی کا حکم تها کہ ہارياجيت کسی بهی صورت ميں وہاں سے ہڻنا نہيں ہے ۔بہرکيف اس سے دشمن کے اندرجرات پيدا ہورہی تهی ....اِسی ليے الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے غزوه احد کی صبح اعلان کيا کہ نکل جاومکی لشکرسے مقابلے کے ليے ،تاکہ تمہاری قوت کا انہيں اندازه لگ سکے ،ليکن صرف وہی نکلے جو جنگ احد ميں شريک تها ....،صحابہ زخمی ہيں،تهکان سے چورچورہيں،ليکن پکار نبی رحمت کی ہورہی ہے ،لبيک کہا اورنکل گئے ،الله پاک کو يہ اداپسند آئی اوراُن کی تعريف فرمائی الذين استجابوا  والرسول من بعد مااصابهم القرح صحابہ نے حمراءالاسد پہنچ کر پڑاوڈال ديا،مشرکين نے روحاءپہنچ کر پڑاوڈال رکها تها ،آپ نے مشرکين کے دلونميں رعب پيدا کرنے کے ليے بہت زياده آگ جلانے کا حکم ديا،يہاں پر قريش کا ايک شخص ابوعزه اسلمی پکڑا گياجسے الله کے رسولصلى الله عليه وسلم نے اُس کی بيڻيوں کی وجہ سے جنگ بدرميں بنا فديہ ليے ہی رہا کردياتها ،اِس شرط کے ساته کہ اب پهر مسلمانوں کے خلاف جنگ ميں شريک نہ ہوگا،ليکن احد ميں شريک ہوگياتها ،الله کے رسول نے اُس کے قتل کا حکم ديا،منت سماجت کرنے لگاتوآپ نے فرمايا: لايلدغ المومن من جحر واحد مرتين ۔(بخاری) بہرکيف الله کے رسول صلى الله عليه وسلمابهی حمراءالاسدميں ہی تهے کہ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کے خيرخواہونميں سے ايک شخص جس کانام تها معبدبن ابی معبدخزاعی، وه گيا ابوسفيان کے پاس اوراُس کی ہمت پست کرنے کے ليے کہا کہ مسلمان پوری تياری کے ساته تم سے مقابلہ کے ليے آرہے ہيں،ايک بها ری لشکر ہے اُن کے ساته ،ابهی تم کوچ کرنے سے پہلے اُن کے ہراول دستہ کو ڻيلے سے نکلتے ہوئے ديکه لوگے ۔يہ سن کر مکی لشکرکی ہمٹ ڻوٹ گئی ،اُن کے حوصلے پست ہوگئے ،اوروه جلدی سے مکہ کوچ کرگئے ۔ مسلمان بهی وہيں سے مدينہ پلٹ آئے ۔ غزوه خيبر الحمد رب العالمين والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلين نبينا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعين وبعد صلح حديبيہ کے بعد قريش کی حرکت ڻوٹ چکی تهی ،اورمسلمان ان کے شر سے محفوظ ہوچکے تهے ،رہے غطفان جو خندق ميں چه ہزار کی فوج لے کرآئے تهے تو يہ بهی اصل ميں خيبر کے يہوديوں کے بہکانے کی وجہ سے تها ،خيبرکے يہوديوں نے ہی قريش کو ،غطفان کو اور سارے عرب قبائل کو اسلام کے خلاف متحد کرکے خندق ميں جمع کيا تها، يہ اہل خيبر ہی تهے جنہوں نے بنوقريظہ کو خيانت پر آماده کياتها،يہ اہل خيبر ہی تهے جو سارے اسلام دشمنوں کو اکساتے رہتے تهے ،اور خودبهی جنگ کی تيارياں کررہے تهے ،بلکہ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو بهی شہيد کرنے کا پلان بنالياتها ،يہ مسلمانوں کے ليے خطره کی گهنڻی بنے تهے ، خيبر ميں اکڻها ہوکر انڈے بچے دے رہے تهے ،اس ليے ضرورت تهی کہ اہل خيبر کی سرکوبی کی جائے تاکہ پورے عرب ميں امن وامان قائم ہوسکے ۔ چنانچہ اہل خيبر کی سرکوبی کے ليے الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے تياری شروع کردی ،انہيں صحابہ کو ساته لياجو صلح حديبيہ ميں شريک تهے اورواقعی مخلص تهے جن کی تعداد چوده سو تهی ، الله کے رسول صلى الله عليه وسلمنے رات بالکل خيبر کے قريب گذاری ،اور صبح علی الصباح خيبر ميں داخل ہوئے تو اُس وقت خيبر والے کهيت ميں کام کرنے کے ليے نکل رہے تهے ،اسلامی لشکر کو ديکها تو بهاگتے ہوئے آئے ،الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: الله اکبر خربت خيبر الله اکبر خربت خيبر انا اذا نزلنا بساحة قوم فساءصباح المنذرين“ الله اکبر خيبر تباه ہوا ، الله اکبر خيبر تباه ہوا ،جب ہم کسی قوم کے ميدان ميں اُترتے ہيں تو اُن ڈرائے ہوئے لوگونکی صبح بُری ہوجاتی ہے ”۔ محترم قارئين ! جس رات الله کے رسول صلى الله عليه وسلم خيبر کی حدود ميں داخل ہوئے آپ نے فرمايا: “ميں کل جهنڈاايک ايسے آدمی کو دونگا جو الله اوراس کے رسول سے محب کرتا ہے او رالله اور اسکے رسول اُس سے محبت کرتے ہيں ،رات بهر لوگ اسی فکر ميں رہے کہ پتہ نہيں کون خوش نصيب ہے جس کو يہ شرف حاصل ہوتا ہے، صبح صبح جب لوگ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کی خدمت ميں اکڻها ہوئے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے پکارا: علی کہا ں ہيں ؟لوگوننے کہا: يارسول الله ! اُن کی تو آنکه آئی ہوئی ہے ۔ آپ نے فرمايا: اُنہيں بلاو،وه آئے ،آپ صلى الله عليه وسلم نے اُن کی آنکه ميں اپنے منہ کا لعاب لگايااور دعا فرمائی ،الله کی شان کہ اُسی وقت ڻهيک ہوگئے ،گويا انہيں کوئی تکليف ہی نہ تهی ،پهرنبی پاک صلى الله عليه وسلم نے اُن کو جهنڈا عطافرمايااورکہا : اطمينان سے جاو،يہاں تک کہ اُن کے ميدان ميں اُتر و،پهر انہيں اسلام کی دعوت دو ،فوالله لان يهدی الله بک رجلا واحدا خيرلک من حمر النعم اللہکی قسم ! تمہارے ذريعہ الله تعالی ايک آدمی کو بهی ہدايت دے دے تويہ تمہارے ليے سرخ اونڻوں سے بہتر ہے ”۔ ........ خيبر کی آبادی دو علاقونميں بڻی ہوئی تهی اور ہر علاقے ميں کئی قلعے تهے ،حضرت علیؓ سب سے پہلے قلعہ ناعم کے پاس گئے ، اور يہود کو اسلام کی دعوت دی ،انہوں نے اسلام کی دعوت کو رد کرديا اور اپنے بادشاه مرحب کے ساته مقابلے کے ليے تيار ہوگئے ،سب سے پہلے خيبرکابادشاه مرحب ميدان ميں آيا جس کا مقابلہ کرنے کے ليے عامرؓ نکلے ،دونوں نے ايک دوسرے پر وار کيا ، ليکن عامرؓ زخمی ہوگئے تو مرحب کے مقابلے کے ليے حضرت علیؓ تشريف لے گئے ،آپ يہ شعر کہہ رہے تهے انا الذی سمتنی امی حيدره کليث غابات کريہ المنظرة ميں وه شخص ہوں کے ميری ماں نے ميرا نام حيدريعنی شير رکها ہے ،جنگل کے شير کی طرح خوفناک ”۔ اُس کے بعد مرحب کے سر پر ايسی تلوار ماری کہ وه وہيں پر ڈهير ہوگيا اور حضرت علیؓ کے ہاتهو نقلعہ ناعم فتح ہوا ۔ اُس کے بعد مسلمانوں نے دوسرے قلعہ صعب بن معاذ کا رخ کياجس پر زور وں کے رن کے بعدقابض ہوئے ۔ پهر قلعہ زبير کو فتح کيا ،اس کے بعد قلعہ ابی کو فتح کيا ، سارے قلعوں ميں سخت ترين قلعہ ‘قلعہ نزار’ تها ليکن وه بهی فتح ہوگيا، اب تک خيبر کا آدها حصہ فتح ہوچکا تها ،اب مسلمانوں نے دوسرے حصہ کا رخ کيا ،بات يہ تهی کہ جو قلعہ فتح ہوتا تها يہود اُس سے نکل کر دوسرے قلعونميں چلے جاتے تهے ،جب الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے کتيبہ علاقے کا محاصره کيا تو چوده روز تک محاصره جاری رہا،جب يہودکو تباہی کا يقين ہوگياتو صلح کے ليے قلعہ سے نکلے ۔الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے صلح اِس شرط پر منظور کرلی کہ سب خيبرسے نکل جائيں گے ،اُن کی جان بخشی کردی جائے گی ،اُن کے بال بچے اُن کے ہی پاس رہيں گے ۔....خيبر کے يہوديوں کے تئيں معاہده تو يہی تها کہ انہيں خيبر سے نکل جانا ہے ،ليکن پهر انہوں نے الله کے رسول صلى الله عليه وسلمسے گذارش کی کہ انہيں اسی سرزمين ميں رہنے دياجائے ،چانچہ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اُن کا رہنا منظورکرليااور خيبر کی زمين اِس شرط پر اُن کے حوالے کردی کہ ساری کهيتی اور تمام پهلوں کی پيداوار کا آدها حصہ يہودکا ہوگا ۔ اسی غزوه ميں خيبر کے سردار حی بن اخطب کی بيڻی صفيہ قيد يونميں لائی گئيں،الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اُن پر اسلام پيش کيا انہوننے اسلام قبول کرليا ،چنانچہ صحابہ کرام کے مشورے سے آپ نے انہيں آزاد کرکے اُن سے شادی کرلی ۔اس طرح صفيہ رضى الله عنها ام المومنين بن گئيں ۔ محترم قارئين ! آپ نے ديکها کہ نبی رحمت صلى الله عليه وسلم نے يہود کی اِتنی غداری اور بے وفائی کے باجود کيسے اُن پرحسان کيا ،اور خيبر ميں رہنے کا موقع عنايت فرمايا،ان سارے احسانات کے باوجود چند ہی دنونميں جبکہ الله کے رسول خيبر ہی ميں تهے کہ اُن کی بے وفائی لوٹ آئی،اپنے محسن کے قتل کے درپے ہوگئے ، پلان کے مطابق ايک يہوديہ جس کا نام زينب بنت حارث تها ،اُس نے الله کے رسول کی خدمت ميں زہرآلود گوشت پيش کيا،اُسے معلوم تها کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم کو بازو زياده پسند ہے ،اِس ليے اُس نے بازوميں زياده زہر ملايا،اُس کے بعدالله کے رسول صلى الله عليه وسلم کی خدمت ميں پيش کيا ،الله کے رسولصلى الله عليه وسلم نے اُس کا ايک ڻکڑا چباياليکن نگلنے کی بجائے تهوک ديااورفرمايا: يہ ہڈی مجهے بتارہی ہے کہ اِس ميں زہر ملاياگياہے ۔ فوراً زينب کو بلاياگيااور اُس سے پوچها گيا :کہ کياتم نے ايسی حرکت کی ہے؟ اُس نے اقرار کرليا ،کہ ہاں ميں نے ايسا کيا ہے ۔پوچهاگيا: تونے ايسا کيوں کيا؟ اُس نے کہا : ميں نے سوچا کہ اگر يہ بادشاه ہے تو ہميں اُس سے راحت مل جائے گی اوراگر نبی ہے تو اُسے خبر دے دی جائے گی ۔ اِ س پر آپ نے اُسے معاف کرديا ۔ ليکن آپ کے ساته کهانے والونميں بشر بن براؓء بهی تهے جنہوں نے ايک ڻکڑا نگل ليا تها اوراسی سے اُن کی موت ہوگئی،چنانچہ قصاص کے طور پر الله کے رسولصلى الله عليه وسلم نے اُس عور ت کو قتل کراديا ۔ محترم قارئين ! جب الله کے رسول صلى الله عليه وسلم يہود کے شر کو ختم کرنے ميں کامياب ہوگئے تو اب تيسرے بازوبنو غطفان کی طرف دهيان ديا،يہ اصل ميں بّدولوگ تهے جو نجد کے علاقے ميں خيمونميں رہتے تهے اورلوٹ مار کرتے تهے ،اِن سے مقابلہ کيا کرتے ،بس اِن کو ڈرانا دهمکانا مقصود تها ،اِسی ارادے سے سن ۷ ہجری ميں چارسو يا سات سو صحابہ کو لے کر نجد کے علاقے ميں گئے ،مقام نخل پہنچے تو بنوغطفان کی ايک جماعت سے سامناہوا ،پر جنگ نہيں ہوئی ۔اِس غزوے کو ذات الرقاع کہتے ہيں : اِسی غزوے سے لوڻتے وقت ايک واقعہ پيش آيا جو سيرت کا بہت مشہور واقعہ ہے : صحيح بخاری کی روايت ہے ، اِ س غزوے سے واپسی پر الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ايک جگہ قيام فرمايا، سارے لوگ درخت کے سائے ميں آرام کرنے کے ليے ادهر اُدهر منتشر ہوگئے ،نبی پاک صلى الله عليه وسلم بهی ايک درخت کے پاس گئے اور اُسی درخت پر اپنی تلوار لڻکادی اور آرام سے سوگئے ،ايک ديہاتی آيا اور آپ کی تلوار سونت لی ،اور بولا : تم مجه سے ڈرتے ہو ؟ آپ نے فرمايا: نہيں ۔ اس نے کہا : فمن يمنعک منی ؟ تب تمہيں مجه سے کون بچائے گا ۔ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے بے ساختہ فرمايا: الله ،نہ جانے اِس لفظ ميں کونسی طاقت تهی کہ تلوار اُس کے ہاته سے چهوٹ کر گرگئی ،اب الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے تلوار اُڻها لی ،اور پوچها : اب بتاوتجهے مجه سے کون بچائے گا ؟ کہا : آپ کا احسان ۔ يعنی اگر آپ احسان کريں تو بچ سکتا ہوں۔ آپ نے فرمايا: کياتم شہادت ديتے ہو کہ الله کے سوا کوئی معبود نہيں اورميں الله کا رسول ہوں۔ اُس نے کہا: ميں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ نہ آپ سے جنگ کروں گا اورنہ جنگ کرنے والوں کا ساته دوں گا ۔الله کے رسول صلى الله عليه وسلمنے اُسے معاف کرديا ۔ اب جو اپنی قوم ميں گيا تو کہنے لگا : ميں تمہارے يہاں سب سے اچهے انسان کے پاس سے آرہا ہوں ۔ محترم قارئين !ہم نے صلح حديبيہ کے اتفاق ميں سنا تها کہ مسلمانوں کو اُس وقت عمره کرنے کی اجازت نہيں دی گئی تهی ،ليکن کہا گياتها کہ اگلے سال آپ لوگ آئيں ،تين روز مکہ ميں قيام کريں اوراس بيچ عمره کرليں، چنانچہ جب سن سات ہجری کے محرم ميں خيبر فتح ہوگياتو اُسی سال ذی القعده ميں الله کے رسول صلى الله عليه وسلماپنے صحابہ کے ساته عمره کے ليے نکلے ،ذوالحليفہ آئے ،احرام باندها ،لبيک پکارا،اورسوئے مکہ ہوئے ،مسجد حرا م ميں پہنچے تو چهڑی سے حجر اسود کوچهوا،پهر سواری ہی پر طواف کيا،مسلمانوں نے بهی داہنے کندهے کو کهولے خانہ کعبہ کا طواف کيا،مشرکين پہاڑ پر بيڻهے آپس ميں باتيں کررہے تهے کہ ديکهو ! يثرب کے لوگوں کو بخار نے کمزور کر رکهاہے ۔چنانچہ الله کے رسولصلى الله عليه وسلم نے حکم دياتهاکہ پہلے تين چکرونميں دوڑ لگائيں تاکہ مشرکين پر تمہاری طاقت ظاہر ہوسکے ۔پهر آپ نے صحابہ کرام کے ساته صفا ومروه کی سعی کی او رسرمڻڈوايا۔ اس طرح عمره مکمل کيا اور تين روزمکہ ميں قيام فرمانے کے بعد مدينہ لوٹ آئے ۔ محترم قارئين !انہيں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہيں ، اگلے حلقہ ميں کل ڻهيک اِسی وقت ان شا ءالله سيرت طيبہ کی تازه جهلکيوں کے ساته پهر مليں گے ۔ تب تک کے ليے اجازت ديجئے ۔ الله حافظ فتح مكه الحمد رب العالمين والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلين نبينا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعين وبعد حديبيہ ميں مسلمانوں اور قريش کے مشرکين کے بيچ صلح ہوئی کہ دس سال تک دونوں کے بيچ جنگ بند رہے گی ،يہ بهی اتفاق ہوا کہ دوسرے قبيلے بهی فريقين ميں سے کسی کے حليف بن سکتے ہيں ،چنانچہ قبيلہ خزاعہ مسلمانوں کے حليف بن گئے اورقبيلہ بنوبکر قريش کے حليف بن گئے ،دونوں قبيلوں کے بيچ زمانہ جاہليت سے دشمنی چلی آرہی تهی ،ايک روز ايسا ہوا کہ بنو بکر نے خزاعہ پر حملہ کرديا،قريش نے بهی بنوبکر کی چپکے سے ہتهياروں اورآدميوں سے مددکی ،يہا نتک کہ بنوبکر نے اُن کے بيس سے زياده آدمی قتل کردئيے ،اِس طرح الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کے ساته قريش نے خيانت کی اور دهوکہ ديا،بنو خزاعہ چونکہ رسول صلى الله عليه وسلم الله کے ساته صلح ميں شامل ہوگئے تهے ،اس ليے انہوں نے الله کے رسول صلى الله عليه وسلمکو واقعے سے باخبرکيا،الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اُن کويقين دلاياکہ تمہاری پوری طرح مددکی جائے گی۔اِدهر قريش کو بهی اپنی غلطی کا احساس ہوا تو فوراً ابوسفيان کو نبی پاک صلى الله عليه وسلم کی خدمت ميں بهيجاکہ مدينہ جاکرصلح کے معاہدے کو پختہ کرلو۔ابوسفيان مدينہ پہنچا تو سب سے پہلے اپنی بيڻی ام المومنين ام حبيبہؓ کے پاس آيا،ايک عرصہ بيت گياتها بيڻی کو ديکهے ہوئے ، سوچا رہا ہوگا ،خوب آوبهگت کرے گی ،جب گهر ميں داخل ہوا اور رسول الله صلى الله عليه وسلم کے بستر پر بيڻهنا چاہا تو انہوں نے بستر لپيٹ ديا،ابوسفيان نے کہا: بيڻی ! کياتم نے اس بستر کو ميرے لائق نہيں سمجها يامجهے اِس بستر کے لائق نہيں سمجها ؟۔ مومنہ بيڻی نے بے ساختہ جواب ديا: يہ رسول الله صلى الله عليه وسلم کا بسترہے اورآپ ناپاک مشرک ہيں ۔ابوسفيان نے کہا: والله ميرے بعد تجهے شرلاحق ہوگياہے ۔ پهر وه نبی رحمت کے پاس آيا اور گفتگو کی ،آپ نے کچه جواب نہ ديا،تو ابوبکر کے پاس آياکہ وه رسول الله صلى الله عليه وسلم سے اس سلسلے ميں بات کريں ،انہوں نے کہا کہ ميں نہيں کرسکتا ۔ تب عمر فارو ق کے پاس گيا ،انہوں نے سخت لہجے مينجواب ديا،تو حضرت علیؓ کے پاس آيا،حضرت علی نے اُسے سمجهايا کہ تم جيسے آئے ہو ويسے ہی مکہ چلے جاو۔ اس طرح نااميد ہوکر ابوسفيان مکہ پہنچا ،مکہ کے لوگونميں خوف پيدا ہوگياتها،اورگهبراہٹ سماگئی تهی ۔اِدهر الله کے رسول صلى الله عليه وسلم قريش پر حملہ کرنے کی تياری کرنے لگے ،اورمعاملے کو بالکل راز ميں رکها ،ليکن اُسی بيچ حاطب بن ابی بلتعہ نے ايک خط لکه کر قريش کو بهيج دياکہ رسول الله تم پر حملہ کرنے والے ہيں ،انہوں نے يہ خط ايک عورت کو ديا اور پہنچانے پر معاوضہ رکهاتها،الله کے رسول صلى الله عليه وسلمکو وحی کے ذريعہ حاطب بن ابی بلتعہ کے عمل سے باخبر کردياگيا،فوراً الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے علی بن ابی طالب اور زبير بن عوامؓ کو اس کے پيچهے لگايا،صحابہ گئے اور عورت سے وه خط طلب کيا،بولی : ميرے پاس کوئی خط نہيں ہے ،لوگوننے کہا: ياتو خط نکالو ياپهر تمہيں ننگا کرديں گے ۔ ڈر سے فوراً اُس نے خط نکال کر صحابہ کے حوالے کرديا،خط لے کر آئے اورالله کے رسول صلى الله عليه وسلم کی خدمت ميں پيش کيا،الله کے رسول صلى الله عليه وسلمنے حاطب بن ابی بلتعہ کو بلايااورکہا: حاطب ! يہ کيا ہے ؟ حاطب نے معذرت کی کہ ميں الله اوراسکے رسول پر ايمان رکهتا ہوں،ميں بالکل بدلا نہيں ہوں،ليکن مکہ ميں ميرے اہل عيال اور بال بچے تهے ،اورقريش ميں ميرا کوئی قرابتدار نہيں جو ان کی حفاظت کريں ،اس ليے ميں نے چاہا کہ کوئی احسان کرديں جس کے بدلے وه ہمارے بال بچوں کی حفاظت کريں ۔عمر فاروق نے جوش ميں کہا:يارسول الله مجهے حکم ديجئے اس کی گردن ماردونکہ اس نے الله اوراُس کے رسول کی خيانت کی ہے ،منافق ہوگياہے ۔ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: يہ جنگ بدرميں حاضر ہوچکا ہے اور تمہيں کياپتہ ؟ہوسکتا ہے الله نے اہل بدرپر جهانک کر کہا ہو ،تم لوگ جوچاہو کرو،ميں نے تمہيں بخش ديا ۔ يہ سن کر عمرفاروقؓ آبديده ہوگئے اورکہا : الله اوراس کے رسول صلى الله عليه وسلم بہتر جانتے ہيں ۔ 10رمضان سن 8ہجری کو رسول الله صلى الله عليه وسلم اپنے دس ہزار صحابہ کے ساته مکہ کے ليے روانہ ہوئے ،جحفہ پہنچے تو حضرت عباسؓ ملے جو مسلمان ہوکر اپنے بال بچونسميت مدينہ آرہے تهے ،جب رسول الله صلى الله عليه وسلمکديد پہنچے تووہاں ڻهہرے ،ابوسفيان ڈرکے مارے نکل آيا تها کہ چل کر معافی مانگ ليں،حسن اتفاق عباؓس سے ملاقات ہوگئی ،اُس وقت عباسؓ رسول الله کے خچر پر سوار تهے ،عباس نے اُسے بڻها ليا،اور لے جاکر الله کے رسول کی خدمت ميں پيش کی،آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا:ابوسفيان ! تم پر افسوس کيااب بهی وقت نہيں آيا کہ تم جان سکو کہ الله کے سواکوئی معبود برحق نہيں ۔بہرکيف اُسی جگہ ابوسفيان نے اسلام قبول کرليا ۔ اس طرح د س ہزار فوج کے ساته رسول الله مکہ ميں داخل ہوئے ،سوره فتح کی تلاوت کرتے ہوئے انصارومہاجرين کے بيچ مسجد حرام ميں آئے ،حجراسود کو چوما ،بيت الله کا طواف کيا،اُس وقت بيت الله کے اردگرد ۰۶۳بت تهے ،آپ کے ہاته ميں ايک لکڑی تهی جس سے انہيں گراتے جارہے تهے اور فرمارہے تهےجاءالحق وزهق الباطل ان الباطل کان زهوقا “حق آگيااورباطل چلا گيا،يقيباً باطل جانے ہی والا ہے ”۔ ....جب طواف سے فارغ ہوگئے تو عثمان بن طلحہؓ کو بلايا،جن کے پاس کعبے کی کنجی تهی ،اُن سے دروازه کهلوايا،اُن ميں جو بت تهے انہيں نکلواکر باہر پهينک ديا۔جو تصويريں تهيں انہيں مڻوايا۔اُس کے بعداسامہ بن زيد اور بلال کو ساته لے کراندر داخل ہوئے ،اوردروازه بندکرليا،دو رکعت نماز ادا فرمائی اوراُس کے چاروں طرف گهوم گهوم کر تکبير وتوحيد کے کلمات کہے ۔ پهر آپ نے کعبہ کا دروازه کهولا ،قريش مسجد حرام ميں صفيں لگائے بهرے تهے ،سب کو اِسی کا انتظار تها کہ پتہ نہيں ۱۲ سال کی لگاتار زيادتيونکی کياسزاملتی ہے ،جی ہاں !يہ وہی قريش تهے جن کی زيادياں اب تک آپ سنتے آئے ہيں ،مکہ کی دهرتی گواہی دے رہی تهيں اُن سارے ظلم وستم کی جو قريش نے محسن انسانيت اور کمزور مسلمانونپر ڈهائے تهے ۔کتنے پيڻهونکو چهيدا ،تپايااور داغا تها،يہ وہی قريش تهے جنہوننے مسلمانونکو گهر سے بے گهر کياتها،اپنے ہمدرد کے قتل کے درپے ہوئے تهے ، مدينہ مينپناه لے لی تهی ليکن وہاں بهی کسی دن چين سے بيڻهنے نہ دياتها، آپ نے کعبہ کے دروازے پر کهڑے ہوکر قريش سے فرمايا:لاتثریب عليکم اليوم.... اذهبوافانتم الطلقاء“آج تم پر کوئی سرزنش نہيں ،جاو!تم سب آزاد ہو ”۔ سبحان الله ....انسانيت کی پوری تاريخ ايسے عفو ودرگذرسے خالی ہے ۔ سلام اُس پر کہ جس نے خوں کے پياسوں کو قبائيں ديں سلام اس پر کہ جس نے گاليانسن کر دعائيں ديں سلام اُس پر کہ دشمن کو حيات جاوداں دے دی سلام اُس پر ابوسفيان کو جس نے اماں دے دی سلام اُس پر کہ اسرار محبت جس نے سمجهائے سلام اُس پر کہ جس نے زخم کهاکرپهول برسائے سلام اُس پر کہ جس کے گهر ميں چاندی تهی نہ سونا تها سلام اُس پر کہ ڻوڻا بوريا جس کا بچهونا تها دروداُس پر کہ جس کانام تسکين دل وجاں ہے دردو اُس پر کہ جس کے خلق کی تفسير قرآن ہے ۔ بہرکيف اُسی دن الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے مردوں سے اسلام پر بيعت لی اور عورتوں سے بهی اسلام پر بيعت ليا ،اُسی دن ابوبکرؓ کے والد ابوقحافہ مسلمان ہوئے ،جن کے اسلام سے الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو بيحد خوشی ہوئی ۔ نمازظہر کا وقت ہوا تو الله کے رسول صلى الله عليه وسلمنے بلالؓ کو حکم ديا اورانہوں نے کعبہ کی چهت پراذان دی ۔ جو اعلان تها غلبہ اسلام کا ....اعلان تها اسلام کی شوکت ،قوت اور طاقت کا .... الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے مکہ ميں انيس روز تک قيام فرمايا ،اِس دوران آثار اسلام کی تجديد کی ،مکہ کو جاہليت کی گندگيوں سے پاک کيا،پورے مکہ ميں اعلان کراياکہ “جو شخص الله اورآخرت کے دن پر ايمان رکهتا ہو وه اپنے گهر ميں کوئی بت نہ رہنے دے ،بلکہ اُسے ڻکڑے ڻکڑے کر دے ”۔ محترم قارئين !انہيں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہيں ، اگلے حلقہ ميں کل ڻهيک اِسی وقت ان شا ءالله سيرت طيبہ کی تازه جهلکيوں کے ساته پهر مليں گے ۔ تب تک کے ليے اجازت ديجئے ۔ الله حافظ غزوه بنو المصطلق الحمد رب العالمين والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلين نبينا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعين وبعد ہجرت کے پانچويں يا چهڻے سال ايک غزوه پيش آيا جوجنگی اعتبار سے کوئی بهاری بهرکم غزوه نہيں ہے ،ليکن اُس ميں کچه ايسے واقعات پيش آئے ،جس نے اسلامی معاشرے ميں اضطراب پيدا کرديا،وه غزوه جس ميں پہلی بار منافقين نے شرکت کی تهی ، وه غزوه جس ميں منافقين نے حرم رسول پرتہمت لگائی تهی ،وه غزوه جس ميں منافقين کا پرده فاش ہواتها،جی ہاں! يہی وه غزوه ہے جسے ہم غزوه مريسيع ،يا غزوه بنی المصطلق کے نام سے جانتے ہيں ۔ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو خبر ملی کہ بنوالمصطلق کا سردار حارث بن ضرار مدينہ پر حملہ کرنے کی تياری کرہا ہے، تحقيق کی گئی تو بات صحيح نکلی ،تب الله کے رسول صلى الله عليه وسلم اُس کی سرکوبی کے ليے اپنے صحابہ کو لے کر نکلے، يہاں تک کہ ايک چشمہ کے پاس پہنچے جسے مريسيع کہاجاتا ہے، وہيں پر دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا ،الله پاک نے بنوالمصطلق کو شکست دی، کچه مارے گئے ، اُن کی عورتوں کوقيد کرليا گيا،جن ميں حارث کی بيڻی جويريہ بهی تهيں ،وه ثابت بن قيس کے حصے ميں آئيں،ثابت نے انہيں مکاتب بناليا،پهر رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اُن کی جانب سے مقرره رقم ادا کرکے اُن سے شادی کرلی ،يہ شادی اس قدربابرکت ثابت ہوئی کہ مسلمانوں نے بنوالمصطلق کے ايک سو گهرانوں کو جو مسلمان ہوچکے تهے آزاد کرديا کہنے لگے :“يہ لوگ تورسول الله صلى الله عليه وسلم کے سسرال کے لوگ ہيں” ۔ يہ ہے اِس غزوے کا مختصر قصہ ... ليکن اِس ميں جو واقعات پيش آئے اُس کی بنياد ہے منافقوں کا سردارعبدالله بن ابی ....عبدالله بن ابی کا کردار ہم نے کئی جگہ پچهلے حلقونميں بيان کياہے ،اُسے اسلام اورمسلمانوں سے کافی جلن تهی ليکن ظاہر ميں وه خو دکو مسلمان ثابت کرتاتها، يہاں بهی اُس نے دوجگہ نہايت گهڻيااورگنده کردار اداکيا: ايک تو اُس وقت جبکہ غزوه خندق سے فراغت کے بعد الله کے رسول صلى الله عليه وسلم اورصحابہ کرام مريسيع کے چشمہ پر ہی تهے کہ ايک انصاری اورمہاجر کے بيچ تو تو ميں ميں ہوگيا ،يہاں تک کہ مہاجرنے انصاری کی پڻائی بهی کردی ،اِس پر انصاری نے آواز لگائی ہائے انصارکے لوگو!مہاجر نے آواز لگائی ہائے مہاجرو ۔ يہ سن کر دونوں طرف کے لوگ اکڻها ہوئے ،الله کے رسول صلى الله عليه وسلم بهی پہنچے آپ نے فرمايا: ابدعوی الجاهلية وانا بين اظہرکم دعوها فانها منتة ميں ابهی تمہارے اندر موجود ہوں اور جاہليت کی پکار پکاری جارہی ہے ،يہ چهوڑ دو يہ بدبودار ہے ”۔ جب منافقين کے سردار عبدالله بن ابی کو اِس کی خبر ملی تو اُس نے اِس موقع سے فائده اڻهايا: کہنے لگا: اچها ....تو اِن کی اتنی ہمت ہوگئی ہے، ابهی کل ہم نے اِن کو مدينہ ميں بسايا ،رہنے کے ليے گهر ديا اورآج ہمارے مقابل بن گئے ،اِن کی مثال تو يہی ہے جو پہلو نے کہی ہے کہ سمن کلبک ياکلک اپنے کتے کو پال پوس کر موڻا کرو اوروه ....تم ہی کو کاٹ کهائے ،....سنو ! والله ، اگر ہم مدينہ واپس ہوئے تو ہم ميں سے عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا ۔ منافق کی يہ بات ايک نوجوان زيدبن ارقم نے سن لی، جاکر اپنے چچا کو بتايا،چچانے الله کے رسولصلى الله عليه وسلم کوباخبرکيا ،آپ نے عبدالله بن ابی کو بلاکر اِس کی تحقيق کی تو وه قسميں کها کها کر کہنے لگا : والله ميں نے ايسی بات کہی ہی نہيں ہے اور ميں کيسے ايسی بات کہہ بهی سکتا ہوں يا رسول الله ....،ليکن اُسی وقت الله پاک نے سوره منافقون نازل کردی اوراُسے قيامت تک کے ليے رسوا کرديا ۔ اِس منافق کے بيڻے جن کا نام بهی عبدالله تها وه مومن تهے ،جب سب لوگ مدينہ ميں داخل ہورہے تهے تو غيرت ايمانی ميں مدينہ کے دروازے پر تلوار لے کر کهڑے ہوگئے اورعبدالله بن ابی کو روک ليا ....کہا کہ تم ذليل ہو اورالله کے رسول عزيز ہيں ،تمہيں مدينہ ميں اُس وقت تک داخل نہيں ہونے دونگا جب تک رسول اللهصلى الله عليه وسلم اجازت نہ دے ديں ۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم کو خبر ملی تو آپ نے کہلا بهيجا کہ اجازت دے دو ۔ محترم قارئين ! اِس خبيث منافق نے دوسرا جو گهڻياکردار انجام ديا اِس غزوے ميں ....وه ہے صديقہ بنت صديؓق پر الزام اور تہمت ....جس کی تفصيل يہ ہے کہ الله کے رسولصلى الله عليه وسلم کا معمول تها کہ جب کسی غزوے ميں جاتے بيويوں کے بيچ قرعہ اندازی کرتے،جس کانام آتا اُسے ساته لے کرجاتے ،اِس غزوے ميں سيده عائشہؓ آپ کے ساته تهيں، واپسی پر ايک جگہ پڑاوڈالا،حضرت عائشہ ہودج سے نکليں اور قضاءحاجت کے ليے چلی گئيں، جب واپس آئيں تو اُن کا ہارکہيں گرگياتها، جہاں غائب ہوا تها وہيں گئيں، کچه ديرتلاش کيايہاں تک کہ ہار پاليا....ليکن اُن کے آنے سے پہلے لشکروہاں سے کوچ کرگيا، لوگوں کو سمجه ميں آيا کہ آپ ہودج ميں بيڻهی ہيں ،آپ ہلکی پهلکی تهيں،اور ہودج اڻهانے والے کئی لوگ تهے ،اِس ليے کسی کو اندازه نہيں ہوا ....اس طرح سب چلتے بنے ۔واپس آئيں تو يہ ديکه کر گهبراگئيں کہ سب جاچکے ہيں ،وہيں بيڻه گئيں کہ جب ہميں نہ پائيں گے تو تلاش کرنے تو ضرور آئيں گے ، اِس طرح اُن کی آنکه لگ گئی ،اِسی بيچ حضرت صفوان بن معطلؓ آگئے جو پيچهے پيچهے چل رہے تهے، زياده سونے کے عادی تهے ،اس ليے دير سے اڻهے تهے، ديکهاکہ عائشہؓ اکيلے يہاں سورہی ہيں ، وه پردے کا حکم آنے سے پہلے اُن کو ديکه چکے تهے، ديکه کر کہا : انا  وانا اليہ راجعون ....رسول الله کی بيوی ....اُس کے سوا کچه نہ کہا ۔ حضرت عائشہ اُن کی آواز سن کر بيدار ہوگئيں ،حضرت صفوان نے سواری اُن کے قريب کيااوروه سوار ہوگئيں ،حضرت صفوان سواری کی نکيل تهامے آگے آگے پيدل چلتے رہے ....يہاں تک کہ لشکر ميں آگئے ،....يہ ديکه کر کمبخت عبدالله بن ابی نے الڻی سيدهی باتيں پهيلانی شروع کرديں ، رسول الله صلى الله عليه وسلم کی پاکيزه بيوی پر تہمت لگاديا،مدينہ آنے کے بعد جس سے ملتا اُس کا کان ميں بهرتا ،يہ سب سن سن کررسول الله صلى الله عليه وسلم بهی پريشان ہوگئے ، کمبخت نے اِسے اس اندازميں پيش کيا تها کہ کچه مومن بهی اُسکی باتوں ميں آگئے،اِدهر عائشہؓ وہاں سے آئيں تو بيمارہوگئيں اورايک مہينہ تک مسلسل بيمار رہيں، پورے مدينہ ميں يہ بات پهيل چکی تهی، ليکن عائشہؓ کو اب تک کچه خبر نہ تهی، بس الله کے رسول کا جو معاملہ پہلے ہوتا تها ويسا معاملہ نہ ديکه رہی تهيں۔ ادهر عائشہؓ بيماری سے اڻهيں تو ايک دن قضائے حاجب کے ليے گئيں، ساته ميں مسطحؓ کی ماں تهيں .... مسطح ابوبکر کے خالہ زاد بهائی تهے جو منافقين کے بہکاوے ميں آگئے تهے ،ام مسطح کا پاوں پهسلا تو اپنے بيڻے کو بد دعا دی ، عائشہؓ نے ڻوکا .... تو ساراقصہ کہہ سنايااوربوليں: کہ مسطح بهی يہی کہتا ہے ۔ يہ خبر کيا تهی گويا بجلی کا شاٹ لگا ہو سيده عائشہؓ کو ....الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کے پاس گئيں اجازت ليں اور والدين کے ہاں آگئيں ،جب بات کی تحقيق ہوگئی تو رونے لگيں، اورخوب روئيں ،روتے روتے دوراتيں اور ايک دن گذر گئے محسوس ہوتا تها کہ کليجہ پهٹ جائے گا ....دوسری رات کی صبح رسول الله صلى الله عليه وسلم تشريف لائے :اور پہلی بار بات کی سيده عائشہؓ سے ....اِس موضوع پر ....کہا : عائشہ ! مجهے تمہارے بارے ميں ايسا ويسا معلوم ہوا ہے ،اگر تم پاک ہو تو الله تعالی تمہاری برات ظاہر کردے گا اور اگر غلطی ہوئی ہے تو توبہ کرلو الله مہربان ہے ۔ يہ سننا تها کہ عائشہؓ کے آنسو بالکل تهم گئے ،والدين سے بوليں، آپ : رسول الله کو جواب ديں .... والدين کو کچه سمجه ميں نہيں آيا کہ کياجواب ديں ۔ تب عائشہؓ نے خود سے کہا : “والله ميں جانتی ہوں کہ یہ بات سنتے سنتے آپ کے دلوں ميں اچهی طرح بيڻه گئی ہے یہاں تک کہ آپ لوگوں نے اِسے سچ سمجه لياہے ،اگرميں کہوں کہ ميں پاک ہوں اورالله خوب جانتا ہے کہ ميں پاک ہوں تو آپ ميری بات نہ مانيں گے، اوراگر ميں اعتراف کرلوں حالانکہ الله خوب جانتا ہے کہ ميں پاک ہوں تو آپُاسے صحيح مان ليں گے،اس ليے ميں وہی کہوں گی جو یوسف عليہ السلام کے والد نے کہا تها : فصبر جميل والله المستعان علی ماتصفون ۔ (یوسف 18( اُس کے بعد عائشہؓ پلٹ کر ليٹ گئيں ،اُسی وقت الله کے رسولصلى الله عليه وسلم پر وحی اُتری، وحی کی کيفيت ختم ہوگئی تو الله کے رسول صلى الله عليه وسلمنے مسکراتے ہوئے فرمايا: اے عائشہ ! الله نے تمہيں پاک قرار ديا ہے ۔ اِس طرح اِس تہمت سے دامن عائشہ پاک ہوگيا ،اورہميشہ ہميش کے ليے الله پاک نے عائشہؓ کی برات نازل کردی ....جو صحابہ منافقين کی باتونميں آگئے تهے جيسے حسان بن ثابت ،مسطح بن اثاثہ، اورحمنہ بنت جحش اِن سب کو اسی اسی کوڑے مارے گئے ۔ ليکن جهوٹ کے قائد عبدالله بن ابی اور اس کے ساتهيوں کو سزا نہ دی گئی کہ اُسے دنياوی سزا کچه فائده نہ دے سکتی تهی­ .... صلح حديبيہ الحمد رب العالمين والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلين نبينا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعين وبعد ذوالقعده سن 6 ہجری کی بات ہے،ايک رات الله کے رسول صلى الله عليه وسلم سورہے تهے ،خواب ميں ديکها کہ آپ اپنے صحابہ کے ساته پرامن طريقے سے بيت الله ميں داخل ہوئے،طواف کيا ،سرمنڈوايا اورقصرکرايا،....ويسے بهی الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو مکہ سے نکلے 6سا ل کاعرصہ ہوچکاتها ،خواہش بهی تهی کہ عمره کا موقع ملتا ....صحابہ سے بتاياکہ ہم عمره کا اراده رکهتے ہيں ،لوگونميں اعلان کردياگيا ،اِس طرح الله کے رسول صلى الله عليه وسلم چوده سوصحابہ کو لے کر مکہ کے ليے روانہ ہوئے ،اپنے ساته قربانی کے جانور بهی لے ليے ،تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ آپ جنگ کے ليے نہيں بلکہ عمره کے ليے جارہے ہيں ،ذوالحليفہ آئے ،احرام باندها اور آگے چلے ،عسفان پہنچے تو آپ کے کسی جاسوس نے خبر دی کہ قريش آپ سے جنگ کرنے کے ليے تيار ہيں ۔الله کے رسول صلى الله عليه وسلمنے صحابہ سے مشوره کيا،ابوبکر صديقؓ نے کہا : ہم تو عمره کے اراده سے آئے ہيں کسی سے الجهنے نہيں آئے ....اورجو الجهنے کی کوشش کرے گا اُس کی خيريت پوچهيں گے ”۔ بہرکيف الله کے رسول صلى الله عليه وسلم حديبيہ ميں پہنچے ،وہاں پر ڻهہرے ،وہيں پر قريش کے کئی نمائندے آئے بات کرنے کے ليے ....ليکن کسی سے بات نہ بن سکی ....الله کے رسول صلى الله عليه وسلمنے خود طے کيا کہ اپنا سفير بهيجيں قريش کے پاس.... اور اُن کو يقين دلائيں کہ ہم صرف عمره کے اراده سے آئے ہيں ہمارا دوسرا کوئی اراده نہيں ہے ۔ چنانچہ الله کے رسولصلى الله عليه وسلم نے حضرت عثمانؓ کو قريش کے پاس بهيجا ،آپ نے مکہ جاکر قريش کے ليڈروں سے بات کی ،انہوں نے کہا کہ آپ چاہيں تو عمره کرليں ليکن ہم ....سب کو اجازت نہيں دے سکتے ،عثمانؓ نے کہا کہ ہم عمره کريں گے تو ايک ہی ساته، اکيلے نہيں کرسکتے ،يہ سن کر قريش نے حضرت عثمانؓ کو اپنے پاس روک ليا ،ادهر صحابہ کے بيچ يہ افواه پهيل گئی کہ حضرت عثمانؓ قتل کردئيے گئے الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کو خطاب کرکے فرمايا: اگر يہ بات صحيح ہے تو ہم اِس جگہ سے ڻل نہيں سکتے يہاں تک کہ عثمانؓ کے خون کا بدلہ نہ لے ليں ۔ اِسی کے ليے الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کرام سے ايک درخت کے نيچے بيعت کی جسے بيعت رضوان کہاجاتاہے۔ جب بيعت مکمل ہوچکی تو حضرت عثمانؓ آگئے ،اِسی پس منظر ميں الله پاک نے يہ آيت نازل فرمائی : لقد رضی الله عن المومنين اذ يبايعونک تحت الشجرة ۔الله مومنين سے راضی ہوا جبکہ وه آپ سے درخت کے نيچے بيعت کررہے تهے ۔ قريش کو جب اِس کی خبر ملی تو اُن پر رعب طاری ہوگيااورانہوں نے صلح کے ليے سہيل بن عمرو کو بهيجا ۔ لمبی گفتگو ہوئی اوراخيرميں چار باتوں پر اتفاق ہوا : پہلی بات : اِس سال آپ لوگ مکہ ميں داخل ہوئے بغير واپس چلے جائيں ،اگلے سال مکہ آئيں،تين روز قيام کريں،اس دوران آپکے ساته کوئی ہتهيانہ ہوگا ،تلوار بهی ہوگی تو ميان ميں ۔ دوسری بات : دونوں فريق ميں دس سال کے ليے جنگ بند رہے گی ۔تيسری بات: جو محمدصلى الله عليه وسلم کے عہد ميں داخل ہوناچاہتا ہے ہو سکتا ہے اور جو قريش کے عہد ميں داخل ہونا چاہتا ہے ہوسکتا ہے ۔ چوتهی بات : قريش کا جوآدمی مسلمانونکی پناه ميں جائے گا اُسے قريش کے حوالے کرناہوگا ليکن مسلمانونکا جو آدمی قريش کی پناه ميں جائے گا قريش اُسے مسلمانوں کے حوالے نہيں کرسکتے ۔ ابهی صلح نامہ لکها ہی جارہا تها کہ قريش کے نمائندے سہيل بن عمروکے بيڻے ابوجندل بيڑياں گهسيڻتے ہوئے پہنچے ،قريش اُن کو اسلام لانے کے جرم ميں يہ سزا دے رے تهے ،الله کے رسول سے منت سماجت کرنے لگے کہ ہميں قريش کے ظلم سے بچاياجائے ،الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے کہا کہ ابهی صلح نامہ لکها ہی نہيں گيا ہے ۔ ابوجندل کو ہمارے حوالے کرو۔ اِس پر سہيل تُل گيا کہ تب تو ہم صلح ہی نہيں کرتے ۔ تب الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ابوجندل سے کہا : صبر کرو،ثواب کی اميد رکهو،الله تمہارے ليے اور دوسرے تمام کمزور مسلمانوں کے ليے جلدہی آسانی پيدا فرمائے گا ”۔ صلح کا معاہده طے ہونے کے بعد الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے سارے صحابہ سے کہا کہ اُپ لوگ اُڻهيں اور اپنے اپنے جانور ذبح کرليں اور بال منڈواليں ،مگر کوئی نہ اُڻها کہ چوتهی شرط بہت سخت تهی مسلمانوں کے ليے .... آپ نے تين بار کہا ،پهربهی سب کے سب اپنی جگے بيڻهے رہے،اُس وقت ام سلمہؓ نے مشوره دياکہ آپ اڻهيناپنا جانور ذبح کريں اور بال حلق کراليں،اورکسی سے کچه مت کہيں ۔آپ نے ايسا ہی کيا ،چانچہ آپ کو ديکه کر سارے صحابہ نے اپنے جانور ذبح کئے اور بال حلق کرايا ۔ محترم قارئين !اصل بات يہ ہے کہ مسلمانوں کے غم کی دو وجہيں تهيں....ايک تو يہ کہ ہميں عمره کرنے کا موقع نہيں دياجارہا ہے ،دوسری بات يہ کہ صلح ميں برابر ی نہيں تهی ،عمر فاروق کو اِس کا اتنا احساس ہوا کہ آکر رسول الله صلى الله عليه وسلم سے بحث کرنے لگے : يارسول الله کياہم حق پر نہيں اور وه باطل پر نہيں ،آپ نے فرمايا: کيوننہيں ۔ کہا: کياہمارے مقتولين جنت ميں اوران کے مقتولين جہنم ميں نہيں ۔ آپ نے فرمايا: کيوں نہيں ۔ کہا: تو پهر ہم کيوں اپنے دين کے بارے ميں دباوقبول کريں ۔آپ نے واضح لفظونميں کہا : خطاب کے صاحبزادے ! ميں الله کا رسول ہوں،اُس کی نافرمانی نہيں کرسکتا وه ہماری مدد کرے گا اورمجهے ضائع نہ کرے گا ۔ اُسی کے بعد الله پاک نے يہ آيت ناز ل فرمائی : انا فتحنا لک فتحا مبينا کہ ہم نے آپ کو کهلی فتح عطا فرمائی ہے ۔ اِس صلح کو الله پاک نے فتح مبين قرار دياتها ۔چنانچہ عمرفاروق کوالله کے رسول صلى الله عليه وسلمنے بلاکريہ آيت سنائی اور کہا کہ الله نے اِس صلح کو فتح مبين قرار ديا ہے ۔ اس سے اُس کے دل کو سکون ملا اور وه واپس چلے گئے ۔ معزز قارئين ! آئيے ذرا غور کرتے ہيں کہ حديبيہ کی صلح آخر فتح کيسے ثابت ہوئی ؟ جی ہاں ! صلح کے بعد دعوت کو پهيلنے اور پهولنے کا موقع ملا ۔ اب تک جنگ کی وجہ سے لوگ ايک دوسرے سے بالکل دور تهے ،صلح ہونے کے بعد ايک دوسرے سے ملنے لگے ، قريش کے لوگوننے مدينہ کے مسلمانوں کوقريب سے ديکها ،اُن کی باتيں سنيں،اُن کے اخلاق سے متاثر ہوئے ،پهرانہيں اسلام کی تعليمات سننے کا موقع ملا ،چنانچہ خالد بن وليد،عمروبن عاص ،اور عثمان بن طلحہ جيسے قريش کے ليڈران ايسے ہی وقت اسلام لائے ،....تب الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے کہا : مکہ نے اپنے جگرگوشونکو ہمارے حوالے کرديا ہے ۔ اُسی طرح يہ نکتہ بهی قابل غورہے کہ جب الله کے رسول صلى الله عليه وسلم صلح کے بعدقريش کے فتنے سے مطمئن ہوگئے تو آپ کو موقع ملا کہ اِس دين کی عالميت کا اعلان کريں ،اب تک محدود پيمانے پر دين کی تبليغ ہوسکی تهی ،ليکن صلح حديبيہ کے بعد آپ نے بادشاہوں اور امراوں کو مخاطب کيا ۔حبشہ کے بادشاه نجاشی کو دعوتی خط لکها اوراپنی دوہری ذمہ داری ياد دلائی،جب اُس کے پاس خط پہنچا تو اُس نے خط کو اپنی آنکهوں پر رکها،تخت کے نيچے اُترآيااوراسی پر بس نہيں بلکہ جعفر بن ابی طالب کے ہاته پر اسلام قبول کرليا ۔الله کے رسول صلى الله عليه وسلمنے دوسرا خط اسکندريہ اور مصرکے بادشاه مقوقس کو لکها : جس ميں لکها تها “ميں تمہيں اسلام کی دعوت ديتا ہوں....اسلم تسلم ....اسلام لاوسلامت رہو گے ”۔ جب يہ خط مقوقس کو ملا تو اُس نے خط کی عزت کی اور اُسے ہاتهی کے دانت کے ڈبے ميں رکه کر اُس پر مہر لگائی ،ليکن وه مسلمان نہ ہوا ،تحفے ميں ماريہ اور سيرين دو لونڈيانبيج ديں ۔ تيسرا خط فارس کے بادشاه خسروپرويز کے نام لکها : جب يہ خط کسری کے سامنے پڑهاگيا تو اُس نے اُسے چاک کرديااورکہا ميرے رعاياميں سے ايک حقير غلام اپنا نام مجه سے پہلے لکهتا ہے ۔ الله کے رسول صلى الله عليه وسلمکو اِس کی خبرملی تو فرمايا: الله اُس کی بادشاہت کو پاره پاره کرے ۔ اورہوا بهی ويسا ہی ،اُسی کے بيڻے نے اُس کو قتل کرديا اور بادشاہت پر قبضہ کرليا ۔ چوتها خط روم کے بادشاه قيصر کے پاس بهيجا ،قيصر کو جب خط ملا تو اُس نے اپنے ہرکارے بهيجے کہ کسی عرب کو بلاوجس سے اِس نبی کی تحقيق کی جاسکے ،اتفاق سے ابوسفيان کی سربراہی مينقريش کا ايک قافلہ اُدهر گياتها ، ابوسفيان کودربارمينحاضر کياگيا،ہرقل نے اُس سے چند سوالات کئے ،جواب سن کر نتيجہ نکالا کہ يہ واقعی نبی برحق ہيں چنانچہ اُس نے اخير ميں کہا : اگر مجهے يقين ہوتا کہ ميں اُس کے پاس پہنچ سکوں گا ،تواُس سے ملاقات کی زحمت اڻهاتا، اوراگر اُس کے پاس ہوتا تو اُس کے دونوں پاوں دهوتا ۔ ابوسفيان نے جب يہ جواب سنا تو باہر آکر اپنے ساتهيوں سے کہنے لگا : “ابوکبشہ کے بيڻے کا معاملہ بہت آگے جاچکاہے ،اِس سے تو بنواصفريعنی روميوں کا بادشاه بهی ڈرتا ہے ۔....اُس کے علاوه بهی آپ صلى الله عليه وسلم نے کئی دوسرے بادشاہوناورحاکموں کے نام خط لکهے جيسے دمشق کے امير کے نام ،اميربصری کے نام ، يمامہ کے حاکم کے نام ،بحرين کے حاکم کے نام ،شاہان عمان جيفراوراُس کے بهائی کے نام ،جن ميں سے کچه نے اسلام قبول کيا،اورکچه اسلام کو سراہنے کے باوجود رعاياکے ڈراورحکومت کی محبت ميں اسلام سے محروم رہے۔ صرف امير بصری نے الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کے قاصد حضرت حارث بن عميرازدی کو ....جو خط لے کر گئے تهے ،قتل کرديا، يہ نہايت گهڻياحرکت تهی ،الله کے رسول صلى الله عليه وسلمنے اِس پر سخت غصے کا اظہار فرمايااور يہی واقعہ جنگ موتہ کا سبب بنا ، جس کی تفصيل کا يہاں موقع نہيں۔ محترم قارئين !انہيں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہيں ، اگلے حلقہ ميں کل ڻهيک اِسی وقت ان شا ءالله سيرت طيبہ کی تازه جهلکيوں کے ساته پهر مليں گے ۔ تب تک کے ليے اجازت ديجئے ۔ الله حافظ غزوه حنين – غزوه تبوك الحمد رب العالمين والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلين نبينا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعين وبعد جب مکہ فتح ہوگيا اورخانہ کعبہ 360بتوں کی گندگيوں سے پاک وصاف ہوگيا،تواب لوگ فوج درفوج اسلام مينداخل ہونے لگے ،يہ دراصل الله رب العالمين کے اِس فرمان کی تعبير تهی : اذا جاءنصر الله والفتح و را يت الناس يدخلون فی دين الله افواجا “جب الله کی مدد آئے گی اورمکہ فتح ہوجائے گا توآپ لوگونکو ديکهيں گے کہ وه الله کے دين ميں جوق درجوق درفوج داخل ہورہے ہيں ”۔ سوال يہ ہے کہ ايسا کيسے ہوسکا ؟کيابات ہوئی کہ فتح مکہ کے بعد قبائل اسلام قبول کرنے لگے ؟ اِس سلسلے ميں ہم ابهی گفتگو کريں گے ليکن اِس سے پہلے فتح مکہ کے بعد واقع ہونے والے دواہم غزوات کاتذکره کرنامناسب سمجهتے ہيں ۔ غزوه حنين :پہلاغزوه:غزوه حنين ہے ،جوشوال سن آڻه ہجری ميں واقع ہوا ،جب مکہ فتح ہوچکا تو ثقيف اور ہواِزن کے قبائل نے اپنی ہمت کا مظاہره کرنا چاہا ،اورمسلمانوں سے مقابلہ کرنے کے ليے وادی حنين ميں اکڻهاہوگئے ،الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو معلوم ہوا تو آپ باره ہزار کا لشکر لے کر حنين پہنچے ،بنوہواِزن عورتوں، بچوں،اوراونٹ ،بکريونسميت نکلے تهے،...جانتے ہيں کيوں؟تاکہ وه اُن کی حفاظت کے جذبہ کے ساته جنگ کريں ....ادهرصحابہ کو اپنی کثرت تعداد پر غرورہونے لگا،الله تعالی کويہ اداپسندنہ آئی ،مقابلہ ہواتومسلمانونکی صفونميں اضطراب پيدا ہوگيا،بهگڈرمچ گيا،اورکيوننہ مچتا کہ اُن کو اپنی تعداد پر ناز ہونے لگاتها ۔ ليکن الله کے رسول صلى الله عليه وسلم....اُس وقت بهی دشمنونکاسامناکر رہے تهے اورفرمارہے تهے انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب ۔پهر مسلمان اکڻها ہوگئے اوردشمن پريکبارگی حملہ کياتودشمن ميدان سے بهاگنے لگے ،کچه طائف کی طرف بهاگے ،کچه نخلہ کی طرف بهاگے اور کچه نے اوطاس ميں پناه لی ۔ جان کے ڈرسے اپنی عورتوں، بچوں اورجانورونکو چهوڑچهاڑکر بهاگے تهے ،....مال غنيمت اور قيديونکو جمع کياگيا ....اونٹ چوبيس ہزار تها،بکرياں چاليس ہزار سے زياده ،چاندی چارہزار اوقيہ ،عورتيں اور بچے چه ہزار،....اُس کے بعد الله کے رسول صلى الله عليه وسلمنے طائف کا محاصره کيا ،يہ محاصره بيس دن تک جاری رہا ليکن وه قلعہ بند ہوچکے تهے ،اس ليے الله کے رسول صلى الله عليه وسلمنے اُن کے ليے دعا کی “اے الله !ثقيف کو ہدايت دے اورانہيں مسلمان بناکر لے آ”پهرآپ نے کوچ کا اعلان فرمايا،طائف سے جعرانہ آئے اوردس دن تک ڻهہرے رہے ،مال غنيمت تقسيم نہ فرمايا،کيوں کہ آپ کو انتظار تها کہ ہواِزن توبہ کرکے آجائيں اوراپنے مال اور قيدی لے جائيں ،ليکن جب کوئی نہ آيا تو تاليف قبل کے ليے کمزورمسلمانوں کو اِس ميں سے خوب خوب ديا،ايک ايک آدمی کو سو سو اونٹ دئيے ۔اِس ميں الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کی دورانديشی تهی کہ اسلام اُن کے دل ميں بيڻه جائے کہ کچه لوگ عقل کے راستے نہيں بلکہ پيٹ کے راستے اسلام ميں آتے ہيں، انصارمدينہ يہ سب ديکه رہے تهے ،کسی کو سو سو اونٹ مل رہا ہے اورکسی کو کچه بهی نہيں۔فطری بات تهی.... انصار ميں چہ ميگوئياں ہوئيں،....بعض نے شکايت کالہجہ اپناياکہ وه حقيقت کو سمجه نہ سکے تهے ،....جب الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو پتہ چلا تو انصارکے پاس آئے اوراُن سے کہا: “انصار کے لوگو!تم اپنے جی ميں دنيا کی حقير سی دولت کے ليے ناراض ہوگئے ،جس کے ذريعہ ميں نے لوگونکا دل جيتا تاکہ وه مسلمان ہوجائيں ،اورتم کو تمہارے اسلام کے حوالے کردياتها،اے انصار!کيا تم اِس سے راضی نہيں کہ لوگ اونٹ اوربکرياں لے کر جائيں اورتم رسول الله صلى الله عليه وسلم کولے کر اپنے ڈيرونميں پلڻو،اُس ذات کی قسم جس کے ہاته ميں محمد کی جان ہے ،اگرہجرت نہ ہوتی تو ميں بهی انصار ہی کا ايک فرد ہوتا ،اگر سارے لوگ ايک راه چليں اورانصار دوسری راه چليں تو ميں بهی انصار ہی کی راه چلونگا ۔ اے الله رحم فرماانصار پر اوراُن کے بيڻوں پر اوراُن کے پوتوں پر ۔ الله کے رسول کا يہ خطاب سن کر لوگ اس قدر روئے کہ اُن کی داڑهياں تر ہوگئيں ،....کہنے لگے ....“ہم راضی ہيں کہ ہمارے حصے اورنصيب ميں رسول الله صلى الله عليه وسلم ہوں”۔ اُس کے بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم واپس ہوگئے اورلوگ بهی بکهر گئے ۔ مال غنيمت تقسيم ہونے کے بعد ہواِز ن کا وفدبالآخر آہی گيا،انہوں نے اسلام قبول کيااور بيعت کی۔ الله کے رسول صلى الله عليه وسلمنے اُس وقت ان کو اختياردياکہ قيدی اورمال ميں سے جو پسند ہو....ايک چن لو ، انہوں نے کہا : ہماری عورتيں اورہمارے بچے ہميں واپس کرديجئے ،چنانچہ الله کے رسولصلى الله عليه وسلم نے ايسا ہی کيا۔ غزوه تبوک :محترم سامعين ! ايک دوسرا غزوه جو فتح مکہ کے بعد سن 9 ہجری ميں ہوا ....وه ہے غزوه تبوک ....جو روميوں اورمسلمانوں کے بيچ پيش آياتها ....الله کے رسو ل صلى الله عليه وسلمکو جب پتہ چلا کہ رومی ايک فيصلہ کن جنگ کی تياری کررہے ہيں تو آپ صلى الله عليه وسلم نے بهی تياری شروع کردی ،صحابہ ميں اعلان کياگيا کہ اِس کے ليے جس سے جتنا بن سکتا ہو لے کر آئے ،ابوبکرؓ نے اپناسارا مال لاکرخدمت اقدس ميں پيش کرديا،عمرفاروقؓ آدها مال لائے ،عثمانؓ نے دس ہزار دينار،....پالان اور کجاوے سميت تين سو اونٹ ....اورپچاس گهوڑے دئيے ،يہ ديکه کر نبی پاک صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: ماضر عثمان مافعل بعداليوم“آج کے بعد عثمان جوبهی کريں انہيں نقصان نہ ہوگا۔ اِس طرح دوسرے صحابہ نے بهی دل کهول کرتياری ميں حصہ ليا،جب تياری ہوچکی تو الله کے رسول صلى الله عليه وسلم تيس ہزار کا لشکر لے کر تبوک روانہ ہوئے ،سواری اور توشے کی سخت کمی تهی ،اڻهاره اڻهاره آدمی ايک اونٹ پر باری باری سوارہوتے تهے ،لوگ درخت کے پتے کهانے پر مجبورہوئے ،اپنے اونڻونکو ذبح کرديا کہ ان کے معدے اورآنتونکا پانی پی سکيں ۔ الله اکبر کيسی قحط سالی تهی اورکيسے حالات پيش آگئے تهے مسلمانوں کے سامنے ....جب روميوں کو تبوک ميں الله کے رسول صلى الله عليه وسلمکے آنے کی خبرملی تو اُن کے حوصلے ڻوٹ گئے ،مقابلے کی ہمت نہ رہی ،اوراپنے ملک ميں ہی بکهر گئے .... وہاں الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے بيس روز قيام فرمايااوروفود سے ملاقاتيں کيں ۔ بيس دن کے بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم مدينہ کی طرف روانہ ہوئے ،مدينہ پہنچنے کے بعد مسجد ميں داخل ہوئے ،دورکعت نماز ادا کی ا ورلوگوں کے ليے بيڻه گئے ۔ جو منافقين اِس غزوے سے پيچهے ره گئے تهے انہوں نے آکر معذرت کی ،اورقسميں کهائيں،آپ نے اُن کاظاہر قبول کرليااورباطن الله کے سپرد کردی ۔تين مومن بهی آئے جو اِس غزوے سے پيچهے ره گئے تهے ،وه ہيں کعب بن مالک ،مراره بن ربيع اورہلال بن اميہ ....اُن تينوں نے سچ سچ بتاديا ،اورکوئی عذرنہيں بنايا،الله کے رسولصلى الله عليه وسلمنے اُن تينوں سے کہا کہ الله کے فيصلے کا انتظار کريں....اورمسلمانونکوحکم دياکہ اُن سے بات نہ کريں ،اِس طرح اُن کے ليے جانے انجانے بن گئے ،زمين تنگ ہوگئی ،اوردنيا....اندهير ہوگئی ،....چاليس دن کے بعد حکم آياکہ اپنی عورتونکے قريب نہ جائيں ۔ جب پچاس دن پورے ہوئے تو الله نے اُن کی توبہ ناز ل فرمائی : وعلی الثلاثة الذين خلفوا حتی اذا ضاقت عليہم الارض بما رحبت وضاقت عليهم انفسهم وظنوا ان لا ملجامن الله الا اليہ ثم تاب عليهم ليتوبوا ،ان الله هو التواب الرحيم (التوبة118”(اورالله نے اُن تين آدميوں کی بهی توبہ قبول کی جن کا معاملہ مؤخر کردياگياتها ،يہاں تک کہ زمين اپنی کشادگی کے باوجود اُن پر تنگ آگئی ،اوراُن کی جان بهی اُن پر تنگ ہوگئی ،اورانہوں نے يقين کرلياکہ الله سے بهاگ کر کوئی جائے پناه نہيں ہے ،پهر الله نے اُن پر مہربانی کی تاکہ وه توبہ کريں ۔يقيناً الله توبہ قبول کرنے والا رحيم ہے­ محترم قارئين ! فتح مکہ اوراس کے بعد پهرحنين وتبوک کی جنگونميں ....مسلمانوں کی بالادستی نے کفر کی طاقتونکو جہاں کمزور کيا وہيں اسلام کے ليے اُن کی ذہن سازی بهی کی ،جس کااثر تها کہ وفود آنے لگے ، اِن وفود کی تعداد سترسے زائد بتائی جاتی ہے ،بعض اہل علم نے يہ تعدادسو تک پہنچائی ہے ۔ قريش اور نبی پاک صلى الله عليه وسلمکے بيچ ميں جو اختلاف تها عرب اِسی کے نتيجہ کا انتظارکررہے تهے ،وه عقيده رکهتے تهے کہ مکہ پر باطل کا قبضہ نہيں ہوسکتا ،چنانچہ جب الله کے رسول کو مکہ پرفتح حاصل ہوگئی تو اب اُن کو يقين ہوگياکہ يہ رسول برحق ہيں ،اس ليے فتح مکہ کے بعد ہر طرف سے وفود آنے لگے ،وه آتے ،اسلام کو سنتے ،اسلام قبو ل کرتے اور داعی کی حيثيت سے اپنی قوم ميں چلے جاتے تهے ۔چنانچہ آپ ديکهيں کہ کچه ہی دنونميں اسلامی حکومت کا رقبہ بحراحمر کے ساحل سے خليج عربی کے ساحل تک،اورجنوب اردن اوراطراف شام کے علاقے سے يمن اورعمان کے ساحل تک پهيل گيا،اِس طرح اسلام قبول کرنے والونکی تعداد ميں برابراضافہ ہوتا رہا،....جب مکہ فتح ہوا تها تو اُس ميں مسلمانونکی تعداد 10 ہزار تهی....ليکن صرف دو سال کے بعد جب الله کے رسول صلى الله عليه وسلم آخری حج کے ليے نکلتے ہيں تو حج ميں شريک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد ايک لاکه چواليس ہزار ہوجاتی ہے ۔ جی ہاں!جو آپ کے خون کے پياسے تهے آپ کے جانثار بن گئے ، جو کفر کے سرخيل تهے اسلام کے سرخيل بن گئے ،جنہوں نے اپنی زندگی کفرکی تائيدميں لگائی تهی اسلام کے فروغ ميں لگانے لگے ۔ کيانظر تهی جس نے مردوں کو مسيحا کرديا۔ محترم قارئين !انہيں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہيں ، اگلے حلقہ ميں کل ڻهيک اِسی وقت ان شا ءالله سيرت طيبہ کی تازه جهلکيوں کے ساته پهر مليں گے ۔ تب تک کے ليے اجازت ديجئے ۔ الله حافظ حيات طيبہ كے آخرى ايام الحمد رب العالمين والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلين نبينا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعين وبعد جب دين کی تبليغ کا کام پورا ہوگيا ،جزيره عرب ميں اسلام کا بول بالا ہوگيا اور ايسے افراد تيار ہوگئے جو اس عالمی دين کو دنيا کے کونے کونے تک پہنچا ئيں تو اب الله تعالی نے چاہا کہ اپنے نبی کو اس کی محنت کا ثمره دکهادے ،جس کے راستے ميں اُنہوں نے بيس برس سے زياده ہرطرح کی تکليفيں جهيليں تهيں،اور اس کی صورت يہ ہوکہ عرب کے سارے قبائل حج کے موقع پر جمع ہوں جو آپ کی آخری باتيں سنيں اور يہ شہادت ليں کہ انہوں نے امانت اداکردی ۔دين کی تبليغ فرمادی اورامت کی خيرخواہی کا حق ادا کرديا ۔....آپ کوہم بتاتے چليں کے سن 9ہجری ميں حج فرض ہوچکاتها،اُسی سال الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے حضرت ابوبکؓر کواپنے چند صحابہ کے ساته مکہ روانہ فرمايااور يہ اعلان کرادياتها کہ آئنده سے کوئی مشرک کعبہ کا حج نہيں کرسکتا اور نہ کوئی ننگا آدمی بيت الله کا طواف کرسکتا ہے ۔چنانچہ اُس کے دوسرے سال سن 10ہجری ميں رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اپنے ايک لاکه چواليس ہزارصحابہ کے ساته حج کيا، يہ آپ کی زندگی کا پہلا اور آخری حج تها ، چونکہ اُس حج کے صرف تين ماه بعد رسول االلهاکا انتقال ہوگيا ، اس لئے اس حج کو “ حجة الوداع ”کہتے ہيں ، اِس حج ميں الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کے ساته سارے مناسک اداکئے ،10ذی الحجہ کو عرفہ کے ميدان ميں ايک لاکه چواليس ہزار صحابہ کے سامنے ايک جامع خطبہ دياجس ميں، آپ نے فرمايا: لوگو! ميری بات سن لو ! کيونکہ ميں نہيں جانتا ، شاید اس سال کے بعد اس مقام پر ميں تم سے کبهی نہ مل سکوں ۔لوگو ! یاد رکهو! ميرے بعد ہذا اپنے رب کی کوئی نبی نہيں ، اور تمہارے بعد کوئی امت نہيں ، لٰ عبادت کرنا ، پانچ وقت کی نماز اداکرنا، رمضان کے روزے رکهنا ، اور خوشی خوشی اپنے مال کی زکاة دینا ، اپنے رب کے گهر کا حج کرنا اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرنا ، ایسا کروگے تو اپنے رب کی جنت ميں داخل ہوگے ۔ اُسی طرح آپ صلى الله عليه وسلم نے اِس خطبے ميں رنگ ونسل کی تفريق مڻائی ،جان ومال اورعزت وآبروکے احترام کی تاکيد کی ،سودکی حرمت پر گفتگوکی ،معاشرتی زندگی کے استحکام کی طرف توجہ دلائی ،امانت کی ادائيگی پرزورديا،اورکتاب وسنت کو تهامے رہنے کی تاکيد کی ....خطبہ کے بعد آپ نے فرمايا: تم سے ميرے متعلق پوچها جانے والا ہے ، تو تم لوگ کيا کہوگے ؟ صحابہ رضى الله عنهم نے کہا : ہم شہادت ديتے ہيں کہ آپ نے تبليغ کردی ، پيغام پہنچاديا اور خير خواہی کا حق ادا کرديا۔ يہ سن کر آپ صلى الله عليه وسلم نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اڻهائی اور لوگوں کی طرف جهکاتے ہوئے تين بار فرمايا :اللهم اشهد،اللهم اشهد،اللهم اشهد“ اے االله ! گواه ره ”،“ اے االله ! گواه ره ”،“ اے االله ! گواه ره ۔( مسلم )جب خطبے سے فارغ ہوئے تو آپ پريہ آيت کريمہ نازل ہوئی :اليوم اکملت لکم دينکم واتممت عليکم نعمتی ورضيت لکم الاسلام دينا“ آج ميں نے تمہارے ليے تمہارا دين مکمل کرديا ، اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی ، اور تمہارے لئے اسلام کو بحيثيت دين پسند کرليا ”۔( مائده :3 (عمرفاروق رضى الله عنه نے يہ آيت سنی تو رونے لگے ،پوچها گيا : آپ کيو ں رورہے ہيں : فرمايا....: اس ليے کہ کمال کے بعد زوال ہی تو ہے ۔ ....حجة الوداع سے واپسی کے بعد سورة النصر نازل ہوئی ، جس ميں يہ اشاره بهی کرديا گيا کہ اب دنيا سے آپ کے رخصت ہونے کا وقت قريب آچکا ہے ، اُسی طرح آپ صلى الله عليه وسلم نے سن 10ہجری کے رمضان ميں بيس دن اعتکاف فرماياجبکہ ہميشہ دس دن ہی اعتکاف فرماتے تهے ،پهر جبريل عليہ السلام نے آپ صلى الله عليه وسلم کو اس سال دومرتبہ قرآن کا دوره کراياجبکہ ہر سال ايک ہی مرتبہ دوره کراياکرتے تهے ۔کيوں؟ يہ اشاره تها اِس بات کا کہ آپ کی رحلت کا وقت قريب آچکا ہے.... وفات سے تيره دن پہلے 29 صفر ، بده کے دن سے بيماری شروع ہوئی ، اس وقت آپ ام المومنين سيده ميمونہؓکے گهر ميں تهے ، ہردن يہ پوچهتے رہتے کہ ميں کل کہاں رہوں گا ؟ امهات المومنين نے سمجه ليا کہ آپ ام المومنين سيده عائشؓہ کے پاس رہنا چاہتے ہيں ، وفات سے ايک ہفتہ پہلے سيده عائشؓہ کے گهر منتقل ہوگئے ، کمزوری سے چلا نہيں جارہا تها ، سيدنا علؓی اور سيدنا عباؓس کے کندهوں کے سہارے داخل ہوئے ، حال يہ تها کہ آپ کے دونوں ہاته ان دونوں بزرگوں کے کندهوں پر تهے اور پير زمين پر گهسيڻتے ہوئے چل رہے تهے ۔ وفات سے چار دن پہلے تک امت کو پانچوں نمازيں بيڻه کر پڑهاتے رہے ، جمعرات کے دن بعد نماز ظہر آپ انے اپنے آپ کو امت کے سامنے يہ فرماتے ہوئے قصاص کے لئے پيش کيا کہ جس شخص کو مجه سے کوئی تکليف پہنچی ہو ، وه مجه سے اپنا بدلہ لے لے۔اس دن آپ انے مغرب کی نماز پڑهائی ، جب نماز عشاءکے لئے باہر نکلے تو آپ پر غشی کی کيفيت طاری ہوئی ، جب يہ کيفيت دور ہوئی تو سيدنا ابوبکر صديق صکو حکم ديا کہ وه امت کو نماز پڑهائيں ۔ وفات سے دو دن پہلے آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی طبيعت ميں کچه بہتری محسوس فرمائی ، تو آدميوں کے سہارے مسجد ميں تشريف لے گئے ، اور سيدنا ابوبکر صديؓق کے بائيں جانب بيڻه کر نماز ظہر کی امامت فرمائی ، عالم يہ تها کہ سيدنا ابوبکر صديق رضى الله عنه کهڑے ہوکر آپ صلى الله عليه وسلم کی اقتداءکررہے تهے اورلوگ سيدنا ابوبکر صديق رضى الله عنه کی اقتدا کررہے تهے وفات سے ايک دن پہلے دنيا نام کی کوئی چيز گهر ميں رہنے نہ دی ، جتنے غلام تهے سارے کے سارے آزاد کردئے ، جو ہتهيار پاس تهے وه امت کے لئے ہبہ کرديا ، ام المومنين سيده عائشہ سے پوچها کہ گهر ميں کہيں کوئی دينار ودرہم تو نہيں ہيں ، تلاشنے کے بعد چه يا سات دينار نکلے جنہيں وه کہيں رکه کر بهول گئی تهيں ، آپ صلى الله عليه وسلم نے فورا انہيں صدقہ وخيرات کردينے کا حکم ديا ، زندگی کی آخری رات جو اس دنيا ميں بسر کی وه اس طرح کہ اُس رات گهر ميں ديا جلانے کے لئے تيل تک ميسر نہيں تها،سيده عائشؓہ پڑوسی سے تيل ادهار لائيں تب اس رات نبی پاک اکے گهرکا چراغ جلا ۔ سموار کے دن کی صبح....جو وفات کا دن تها .... طبيعت ہلکی محسوس ہوئی، حجرهءمبارکہ مسجد سے ملا ہوا تها، پرده اڻها کر ديکها تو لوگ سيدنا ابوبکر صديق رضى الله عنه کی اقتداءميں نماز ادا کررہے تهے ، ديکه کر مسکرائے ، لوگوں نے آہٹ پاکر خيال کيا کہ آپ امسجد ميں آنا چاہتے ہيں ، خوشی سے لوگ بے قابو ہوگئے ، قريب تها کہ نمازيں ڻوٹ جائيں ،سيدنا ابوبکر صديق رضى الله عنهجو امام تهے ،انہوں نے چاہا کہ پيچهے ہٹ جائيں ، ليکن آپ صلى الله عليه وسلم نے اشاره سے روکا اور حجرے ميں داخل ہوکر پردے گرالئے....يہ وه الوداعی نظر تهی جو آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی وفات سے پہلے امت پر ڈالی اس دن رسول اکرمصلى الله عليه وسلم کا جسم اطہر بخار سےِتپ رہا تها اور آپ بے چينی کی کيفيت ميں.... اپنا ہاته مبارک ساته رکهے ہوئے ايک پتهر کے برتن ميں ڈبورہے تهے اور اپنے چہرے اور پيشانی کو پونچه رہے تهے ، سيده فاطمہ اپنے والد محترم کی اس تکليف کو ديکه کر بے چين ہو گئيں ، کہنے لگيں :”واکرب اباه ” ہائے ميرے باپ کی تکليف ۔ آپ نے انہيں تسلی ديتے ہوئے فرمايا : “ليس علی ابيک کرب بعد اليوم يا بنية ،، ميری بچی ! آج کے بعد تيرے باپ کو کوئی تکليف نہيں ہوگی ۔(بخاری ) پهر آپ نے حسن حسين کوچومااور ازواج مطہرات کوبلاکروعظ ونصيحت کی ۔ آپ نے چہرے پر ايک چادر ڈال رکهی تهی ،جب سانس پهولنے لگتا تو چہرے سے ہڻا ديتے ،اسی حالت ميں آپ نے فرمايا: لعنة االله علی اليهود و النصاری اتّخذوا قبور انبيائهم مساجد“ يہود اور نصاری پر االلهکی لعنت ہو ’ جنہوں نے اپنے انبياءکی قبروں کو مسجد بناليا ” ۔مقصود....اُن کے جيسے کام سے روکنا تها ....پهر فرمايا: سرزمين عرب ميں دو دين باقی نہ رہنے دئيے جائيں ۔ اُس کے بعد کئی بار فرمايا:الصلاة الصلاة وماملکت ايمانکم “نماز کا خيال رکهنا ،نماز کی پابندی کرنا،اوراپنے ماتحت غلاموں کے ساته اچها برتاو کرنا”۔ پهر نزع کی حالت شروع ہوگئی ،حضرت عائشہؓ نے آپ کو اپنے سينے اور گلے کے درميان سہارا لے کر ڻيک ليا، پانی سے بهرا ہوا پيالہ پاس رکهواليا ، اس پر ہاته ڈالتے اور تر ہاته چہرهءمبارکہ پر پهيرليتے، زبان مبارکہ پر آہستہ آہستہ يہ الفاظ جاری تهے : ”لااله الاّ االله اّن للموت سکرات ” االله کے سوا کوئی معبود برحق نہيں اور موت کے ليے سختياں ہيں ۔کبهی چادر چہره مبارک پر ڈال ليتے اور کبهی اتار ديتے،اسی دوران حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضى الله عنه مزاج پرسی کے لئے آئے ، ان کے ہاته ميں تازه مسواک تهی ، آپ اکی نگاہيں مسواک پر جم گئيں ،سيده عائشہؓ کہتی ہيں کہ ميں نے سمجه ليا کہ آپ صلى الله عليه وسلم کو مسواک کی خواہش ہے انہوں نے مسواک کا سر چبايا اور اسے کچل کر نرم کيا ، پهر آپ ا کو دے ديں، آپ نے اس سے مسواک کيا ، يہاں تک کہ وه آپکے ہاته سے گرگئی ۔سہ پہر کو سينہءمبارک ميں سانس کی گڑگڑاہٹ محسوس ہونے لگی، سيده عائشہ رضى الله عنها فرماتی ہيں:قبض روح کا وقت آياتو آپ صلى الله عليه وسلم کا سر مبارک ميرے سينے پر ڻکا ہوا تها ، اس حالت ميں آپ پر بيہوشی طاری ہوگئی ، جب افاقہ ہوا تو آپ اکی نگاه مبارک چهت کی طرف اڻهی اور فرمايا : اے االله ! مجهے رفيق ی” ۔ يہ فقره تين بار دہرايااورروح پرواز کرگئی ۔يہ ی ميں پہنچادے ،اے االله ! رفيق اعلٰ اعلٰ سموار کا دن ،ربيع الاول کی 12تاريخ اورہجرت کا گيارهواں سال تها ۔اُس وقت آپ کی عمر شريف 63سا ل پوری ہوچکی تهی ۔انا وانا اليہ راجعون ۔يہ تها کائنات کا سب سے عظيم سانحہ ،....نہايت تاريک ، المناک اور افسرده دن.... محترم قارئين !انہيں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہيں ، سيرت طيبہ کی جهلکيوں کے آخری حلقہ ميں کل ڻهيک اِسی وقت ان شا ءالله پهر مليں گے ۔ تب تک کے ليے اجازت ديجئے ۔ الله حافظ


IRFAN ULLAH SHAH

lets talk to know each other

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

Newsletter