نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی



احمد، ابوالقاسم، ابوالطیب، نبی التوبہ، نبی الرحمۃ، بدر الدجی، نور الہدی، خیر البری، نبی المرحمۃ، نبی الملحمۃ، الرحمۃ المہداۃ، حبیب الرحمن، المختار، المصطفی، المجتبی، الصادق، المصدق، الامین، صاحب مقام المحمود، صاحب الوسیلۃ والدرجۃ الرفیعۃ، صاحب التاج والمعراج، امام المتقین، سید المرسلین، النبی الامی، رسول اللہ، خاتم النبیین، الرسول الاعظم، السراج المنیر، الرؤوف الرحیم، العروۃ الوثقی
پیدائش
12 ربیع الاول 53ھ / 22 اپریل 571ء (مشہور قول کے مطابق)
مکہ مکرمہ
وفات
12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء
مدینہ منورہ
معظم در
اسلام
بعثت
رمضان 12ھ / اگست 610ء، غار حرا در مکہ مکرمہ
مرکز قیام
مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں واقع حجرہ عائشہ
نسب
اسماعیل بن ابراہیم کی نسل میں قریش عرب سے 
والدہ آمنہ بنت وہب
والد عبدللہ بن عبدالمطلب
رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ
رضاعی والد حارث بن عبد العزی
اولاد نرینہ قاسم، عبد اللہ، ابراہیم
صاحبزادیاں زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ
ازواج مطہرات خدیجہ بنت خویلد، سودہ بنت زمعہ، عائشہ بنت ابوبکر،حفصہ بنت عمر، زینب بنت خزیمہ ام سلمہ، زینب بنت جحش، جویریہ بنت حارث، ام حبیبہ، صفیہ بنت حی، میمونہ بنت حارث، ماریہ القبطیہ (باختلاف اقوال)
:جاہلی معاشرے کی چند جھلکیاں
جزیرۃ العرب کے سیاسی اور مذہبی حالات بیان کر لینے کے بعد اب وہاں کے اجتماعی ، اقتصادی اور اخلاقی حالات کا خاکہ مختصراً پیش کیا جا رہا ہے۔
اجتماعی حالات
عرب آبادی مختلف طبقات پر مشتمل تھی اور ہر طبقے کے حالات ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف تھے۔ چنانچہ طبقہ اَشراف میں مرد عورت کا تعلق خاصہ ترقی یافتہ تھا۔ عورت کو بہت کچھ خود مختاری حاصل تھی۔ اس کی بات مانی جاتی تھی اور اس کا احترام اور تحفظ کیا جاتا تھا۔ اس کی راہ میں تلواریں نکل پڑتی تھیں اور خون ریزیاں ہو جاتی تھیں۔ آدمی جب اپنے کرم وشجاعت پر...جسے عرب میں بڑا بلند مقام حاصل تھا ...اپنی تعریف کرنا چاہتا تو عموماً عورت ہی کو مخاطب کرتا۔ بسا اوقات عورت چاہتی تو قبائل کو صلح کے لیے اکٹھا کر دیتی اور چاہتی تو ان کے درمیان جنگ اور خون ریزی کے شعلے بھڑکا دیتی۔ لیکن ان سب کے باوجود بلا نزاع مرد ہی کو خاندان کا سربراہ مانا جاتا تھا اور اس کی بات فیصلہ کن ہوا کرتی تھی۔ اس طبقے میں مرد اور عورت کا تعلق عقد نکاح کے ذریعے ہوتا تھا اور یہ نکاح عورت کے اوّلیاء کے زیرنگرانی انجام پاتا تھا۔ عورت کو یہ حق نہ تھا کہ ان کی ولایت کے بغیر اپنے طور پر اپنا نکاح کر لے۔
ایک طرف طبقہ اشراف کا یہ حال تھا تو دوسری طرف دوسرے طبقوں میں مرد وعورت کے اختلاط کی بھی کئی صورتیں تھیں۔ جنھیں بد کاری وبے حیائی اور فحش کاری وزنا کاری کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں: ایک تو وہی صورت تھی جو آج بھی لوگوں میں رائج ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اس کی زیر ولایت لڑکی کے لیے نکاح کا پیغام دیتا۔ پھر منظوری کے بعد مہر دے کر اس سے نکاح کرلیتا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ عورت جب حیض سے پاک ہوتی تو اس کا شوہر کہتا کہ فلاں شخص کے پاس پیغام بھیج کر اس سے اس کی شرمگاہ حاصل کرو۔ (یعنی زنا کراؤ) اور شوہر خود اس سے الگ تھلگ رہتا اور اس کے قریب نہ جاتا۔ یہاں تک کہ واضح ہوجاتا کہ جس آدمی سے شرمگاہ حاصل کی تھی (یعنی زنا کرایا تھا ) اس سے حمل ٹھہر گیا ہے۔ جب واضح ہوجاتا تو اس کے بعد اگرشوہر چاہتا تو اس عورت کے پاس جاتا۔ ایسا اس لیے کیا جاتا تھا کہ لڑکا شریف اور باکمال پیدا ہو۔ اس نکاح کو نکاحِ اِسْتبضاع کہا جاتا تھا۔ (اسی کو ہندوستان میں نیوگ کہتے ہیں۔) نکاح کی تیسری صورت یہ تھی کہ دس آدمیوں سے کم کی ایک جماعت اکٹھا ہوتی ، سب کے سب ایک ہی عورت کے پاس جاتے اور بد کاری کرتے۔ جب وہ عورت حاملہ ہوجاتی اور بچہ پیدا ہوتا تو پیدائش کے چند رات بعد وہ عورت سب کو بلابھیجتی اور سب کو آنا پڑتا مجال نہ تھی کہ کوئی نہ آئے۔ اس کے بعد وہ عورت کہتی کہ آپ لوگوں کا جو معاملہ تھا وہ تو آپ لوگ جانتے ہی ہیں اور اب میرے بطن سے بچہ پیدا ہوا ہے اور اے فلاں! وہ تمہارا بیٹا ہے۔ وہ عورت ان میں سے جس کا نام چاہتی لے لیتی ، اور وہ اس کا لڑکا مان لیا جاتا۔
چوتھا نکاح یہ تھا کہ بہت سے لوگ اکٹھا ہوتے اور کسی عورت کے پاس جاتے ، وہ اپنے پاس کسی آنے والے سے انکار نہ کرتی۔ یہ رنڈیاں ہوتی تھیں جو اپنے دروازوں پر جھنڈیاں گاڑے رکھتی تھیں تاکہ یہ نشانی کا کام دے اور جو ان کے پاس جانا چاہے بے دھڑک چلا جائے۔ جب ایسی عورت حاملہ ہوتی ، اور بچہ پیدا ہوتا تو سب کے سب اس کے پاس جمع ہوتے ، اور قیافہ شناس کو بلاتے۔ قیافہ شناس اپنی رائے کے مطابق اس لڑکے کو کسی بھی شخص کے ساتھ ملحق کر دیتا۔ پھر یہ اسی سے مربوط ہو جاتا اور اسی کا لڑکا کہلاتا۔ وہ اس سے انکار نہ کرسکتا تھا - جب اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو مبعوث فرمایا تو جاہلیت کے سارے نکاح منہدم کردیے۔ صرف اسلامی نکاح باقی رہا جو آج رائج ہے۔ (صحیح بخاری : کتاب النکاح ، باب من قال لانکاح الابولی ۲/۷۶۹ وابوداؤد : باب وجوہ النکاح۔)
عرب میں مرد وعورت کے ارتباط کی بعض صورتیں ایسی بھی تھیں جو تلوار کی دھار اور نیزے کی نوک پر وجود میں آتی تھیں۔ یعنی قبائلی جنگوں میں غالب آنے والے والا قبیلہ مغلوب قبیلے کی عورتوں کو قید کر کے اپنے حرم میں داخل کر لیتا تھا لیکن ایسی عورتیں سے پیدا ہونے والی اوّلاد زندگی بھر عار محسوس کرتی تھی۔
زمانۂ جاہلیت میں کسی تحدید کے بغیر متعدد بیویاں رکھنا بھی معروف با ت تھی۔ لوگ ایسی دوعورتیں بھی بیک وقت نکاح میں رکھ لیتے تھے جو آپس میں سگی بہن ہوتی تھیں۔ باپ کے طلاق دینے یا وفات پانے کے بعد بیٹا اپنی سوتیلی ماں سے بھی نکاح کر لیتا تھا۔ طلاق ورجعت کا اختیار مرد کو حاصل تھا اور ان کی کوئی حد معین نہ تھی تا آنکہ اسلام نے ان کی حد بندی کی۔ (ابو داؤد ، نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث ، نیز کتب تفسیر متعلقہ الطلاق مرتان۔)
زنا کاری تمام طبقات میں عروج پر تھی۔ کوئی طبقہ یا انسانوں کی کوئی قسم اس سے مستثنیٰ نہ تھی ، البتہ کچھ مرد اور عورتیں ایسی ضرور تھیں جنھیں اپنی بڑائی کا احساس اس بُرائی کے کیچڑ میں لت پت ہونے سے باز رکھتا تھا۔ پھر آزاد عورتوں کا حال لونڈیوں کے مقابل نسبتاً اچھا تھا، اصل مصیبت لونڈیاں ہی تھیں اور ایسا لگتا ہے کہ اہلِ جاہلیت کی غالب اکثریت اس برائی کی طرف منسوب ہونے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتی تھی۔ چنانچہ سنن ابی داؤد وغیرہ میں مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ !فلاں میرا بیٹا ہے ، میں نے جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اسلام میں ایسے دعوے کی کوئی گنجائش نہیں، جاہلیت کی بات گئی اب تو لڑکا اسی ہوگا جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زنا کار کے لیے پتھر ہے اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور عبد بن زَمْعہ کے درمیان زمعہ کی لونڈی کے بیٹے...عبد الرحمن بن زمعہ...کے بارے میں جو جھگڑا پیش آیا تھا وہ بھی معلوم ومعروف ہے۔
(صحیح بخاری ۲/۹۹۹، ۱۰۶۵، ابو داؤد: الولد للفراش ، مسند احمد ۲/۲۰۷
)
جاہلیت میں باپ بیٹے کا تعلق بھی مختلف نوعیت کا تھا ، کچھ تو ایسے تھے جو کہتے تھے :
انما أولادنا بیننا​
أکبادنا تمشی علی الأرض​
''ہماری اولاد ہمارے کلیجے ہیں جو روئے زمین پر چلتے پھرتے ہیں۔''لیکن دوسری طرف کچھ ایسے بھی تھے جو لڑکیوں کو رسوائی اور خرچ کے خوف سے زندہ دفن کر دیتے تھے اور بچوں کو فقروفاقہ کے ڈر سے مار ڈالتے تھے۔ (قرآن۶:۱۰۱۔ ۱۶:۵۸، ۵۹۔ ۱۷:۳۱۔ ۸۱:۸)لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سنگ دلی بڑے پیمانے پر رائج تھی کیونکہ عرب اپنے دشمن سے حفاظت کے لیے دوسروں کی بہ نسبت کہیں زیادہ اوّلاد کے محتاج تھے اور اس کا احساس بھی رکھتے تھے۔
جہاں تک مختلف قبائل کے ایک دوسرے سے تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ پوری طرح شکسۃ وریختہ تھے۔ قبائل کی ساری قوت ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں فنا ہورہی تھی۔ البتہ دین اور خرافات کے آمیز ے سے تیار شدہ بعض رسوم و عادات کی بدولت بسا اوقات جنگ کی حِدّ ت و شِدّت میں کمی آجاتی تھی اور بعض حالات میں مُوالاۃ، حلف اور تابعداری کے اصولوں پر مختلف قبائل یکجا ہو جاتے تھے۔ علاوہ ازیں حرام مہینے ان کی زندگی اور حصول معاش
کے لیے سراپا رحمت ومدد تھے۔ کیونکہ عرب ان کی حرمت کا بڑا احترام کرتے تھے۔ ابو رجاء عطاری کہتے ہیں کہ جب رجب کا مہینہ آجاتا توہم کہتے کہ یہ نیزے کی انیاں اتارنے والا ہے۔ چنانچہ ہم کوئی نیزہ نہ چھوڑتے جس میں دھار دار برچھی ہوتی مگر ہم وہ برچھی نکال لیتے اور کوئی تیر نہ چھوڑتے جس میں دھار دار پھل ہوتا مگر اسے بھی نکال لیتے اور رجب بھر اسے کہیں ڈال کر پڑا چھوڑ دیتے۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۴۳۷۶ )اسی طرح حرام کے بقیہ مہینوں میں بھی۔ (فتح الباری ۸/۹۱
)
خلاصہ یہ کہ اجتماعی حالت ضُعف وبے بصیرتی کی پستی میں گری ہوئی تھی۔ جہل اپنی طنابیں تانے ہوئے تھا اور خرافات کا دور دورہ تھا۔ لوگ جانوروں جیسی زندگی گزار رہے تھے۔ عورت بیچی اور خریدی جاتی تھی اور بعض اوقات اس سے مٹی اور پتھر جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ قوم کے باہمی تعلقات کمزور بلکہ ٹوٹے ہو ئے تھے اور حکومتوں کے سارے عزائم ، اپنی رعایا سے خزانے بھر نے یا مخالفین پر فوج کشی کرنے تک محدود تھے
مِنْ وَجْہِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرْ
لَا یُمْکِنُ الثَّنَائُ کَمَا کَانَ حَقَّہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اے صاحب جمال کل اے سرورِ بشر                          
رْوئے منیر سے ترے روشن ہوا قمر
ممکن نہیں کہ تیری ثنا کا ہو حق اَدا                                  
بعد از خدا بزرگ توہے قصہ مختصر
جہاں تک سگے بھائیوں، چچیرے بھائیوں، اور کنبے قبیلے کے لوگوں کے باہمی تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ خاصے پختہ اور مضبوط تھے۔ کیونکہ عرب کے لوگ قبائلی عصبیت ہی کے سہارے جیتے اور اسی کے لیے مرتے تھے۔ قبیلے کے اندر باہمی تعاون اور اجتماعیت کی روح پوری طرح کار فرماہوتی تھی۔ جسے عصبیت کا جذبہ مزید دو آتشہ رکھتا تھا۔ درحقیقت قومی عصبیت اور قرابت کا تعلق ہی ان کے اجتماعی نظام کی بنیاد تھا۔ وہ لوگ اس مثل پر اس کے لفظی معنی کے مطابق عمل پیرا تھے کہ ((انصر أخاک ظالمًا أو مظلومًا))(اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم) اس مثل کے معنی میں ابھی وہ اصلاح نہیں ہوئی تھی جو بعدمیں اسلام کے ذریعے کی گئی۔ یعنی ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے باز رکھا جائے ، البتہ شرف وسرداری میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کا جذبہ بہت سی دفعہ ایک ہی شخص سے وجود میں آنے والے قبائل کے درمیان جنگ کا سبب بن جایا کرتا تھا ، جیسا کہ اَوس وخزرج ، عَبْس و ذُبَیْان اور بکر و تَغْلب وغیرہ کے واقعات میں دیکھا جاسکتا ہے۔
نبوت و دعوت کا مکی دور
نبوت ورسالت سے مشرف ہونے کے بعد رسول اللہﷺ کی زندگی کے دو واضح دور ہیں جو ایک دوسرے سے مکمل طور پر ممتاز ہیں۔ جو یہ ہیں :
(۱) مکی دور...تقریبا ً تیرہ سال
(۲) مدنی دور ...پورے دس سال
پھر دونوں میں سے ہر دور کے کئی مرحلے ہیں اور ہر مرحلے کی اپنی خصوصیات ہیں۔ جن کے ذریعہ سے وہ دوسرے مرحلوں سے ممتاز ہے۔ دونوں دور میں آپﷺ کی دعوت جن حالات سے گزری ہے ان پر باریک نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔
مکی دور کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
سری اور انفرادی دعوت کا مرحلہ ...تین سال -
1۔۔۔۔ اہل مکہ میں کھلی دعوت کا مرحلہ ...نبوت کے چوتھے سال کے آغاز سے ہجرتِ مدینہ تک۔
2۔۔۔۔ مکہ سے باہر دعوت کے پھیلاؤ کا مرحلہ ...نبوت کے دسویں سال کے آغاز سے ...یہ مرحلہ مدنی دور کو بھی شامل ہے اور نبیﷺ کی آخری زندگی تک ممتد ہے۔
نبوت ورسالت کی چھاؤں میں:
غارِ حِرا ء کے اندر:
رسول اللہﷺ کی عمر شریف جب چالیس برس کے قریب ہوچلی...اور اس دوران آپﷺ کے اب تک کے تاملات نے قوم سے آپﷺ کا ذہنی اور فکری فاصلہ بہت وسیع کردیا تھا... تو آپﷺ کو تنہائی محبوب ہوگئی۔چنانچہ آپﷺ ستو اور پانی لے کر مکہ سے کوئی دومیل دور کوہِ حراء کے ایک غار میں جارہتے ... یہ ایک مختصر ساغار ہے جس کا طول چار گز اور عرض پونے دوگز ہے۔ یہ نیچے کی جانب گہرا نہیں تھا بلکہ ایک مختصر راستے کے بازو میں اوپر کی چٹانوں کے باہم ملنے سے ایک کوتل کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ آپﷺ رمضان بھر اس غار میں قیام فرماتے، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کرتے۔ کائنات کے مشاہد اور اس کے پیچھے کار فرما قدرتِ نادرہ پر غور فرماتے۔ آپﷺ کو اپنی قوم کے لچر پوچ شرکیہ عقائد اور واہیات تصورات پر بالکل اطمینان نہ تھا لیکن آپﷺ کے سامنے کوئی واضح راستہ ، معین طریقہ اور افراط وتفریط سے ہٹی ہوئی کوئی ایسی راہ نہ تھی جس پر آپﷺ اطمینان وانشراح قلب کے ساتھ رواں دواں ہو سکتے۔
نبیﷺ کی یہ تنہائی پسندی بھی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی تدبیر کا ایک حصہ تھی تاکہ زمین کے مشاغل ، زندگی کے شور ، اور لوگوں کے چھوٹے چھوٹے ہم وغم کی دنیا سے آپ کا کٹنا اس کار عظیم کی تیاری کے لیے پلٹنے کا نقطہ ہو جس کا دنیا کو انتظار تھا اور آپ امانتِ کبریٰ کا بوجھ اٹھانے ، روئے زمین کو بدلنے اور خطِ تاریخ کو موڑنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اللہ نے رسالت کی ذمہ داری عائد کرنے سے تین سال پہلے آپﷺ کے لیے یہ خلوت نشینی مقدر کردی۔ آپﷺ اس خلوت میں ایک ماہ تک کائنات کی آزاد روح کے ساتھ ہم سفر رہتے اور اس وجود کے پیچھے چھپے ہوئے غیب کے اندر تدبر فرماتے تاکہ جب اللہ تعالیٰ کا اذن ہو تو اس غیب کے ساتھ تعامل کے لیے مستعد رہیں۔ 1
جبریل ؑ وحی لاتے ہیں:
جب آپﷺ کی عمر چالیس برس ہوگئی ... اور یہی سن کمال ہے ، اور کہا جاتا ہے کہ یہی پیغمبروں کی بعثت کی عمر ہے ... تو آثار نبوت چمکنا اور جگمگانا شروع ہوئے، چنانچہ مکہ میں ایک پتھر آپ کو سلام کرتا تھا۔ نیز آپ کو سچے خواب نظر آتے تھے۔ آپﷺ جو بھی خواب دیکھتے وہ سپیدۂ صبح کی طرح نمودار ہوتا۔ اس حالت پر چھ ماہ کا عرصہ گزر گیا... جو مدتِ نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے اور کل مدتِ نبوت کا تیئس برس ہے... اس کے بعد جب حراء میں خلوت نشینی کا تیسرا سال آیا تو اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ روئے زمین کے باشندے پر اس کی رحمت کا فیضان ہو۔ چنانچہ اس نے آپﷺ کو نبوت سے مشرف کیا اور حضرت جبریل علیہ السلام قرآن مجید کی چند آیات لے کر آپﷺ کے پاس تشریف لائے۔ 1
دلائل وقرآن پر ایک جامع نگاہ ڈال کر حضرت جبریل علیہ السلام کی تشریف آوری کے اس واقعے کی تاریخ معین کی جاسکتی ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق یہ واقعہ رمضان المبارک کی ۲۱/تاریخ کو دوشنبہ کی رات میں پیش آیا۔ اس روز اگست کی ۱۰/تاریخ تھی اور ۶۱۰ ء تھا۔ قمری حساب سے نبیﷺ کی عمر چالیس سال چھ مہینے بارہ دن اور شمسی حساب سے ۳۹ سال تین مہینے ۲۲ دن تھی۔ 2
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ بیہقی نے یہ حکایت کی ہے کہ خواب کی مدت چھ ماہ تھی۔ لہٰذا خواب کے ذریعے نبوت کا آغاز چالیس سال کی عمر مکمل ہونے پر ماہ ربیع الاوّل میں ہوا جو آپ کی ولادت کا مہینہ ہے لیکن حالت بیداری میں آپ کے پاس وحی رمضان شریف میں آئی۔ (فتح الباری ۱/۲۷ )
2 آغاز وحی کا مہینہ ، دن اور تاریخ مورخین میں بڑا اختلاف ہے کہ نبیﷺ کس مہینے میں شرفِ نبوت اور اعزازِ وحی سے سر فروزہوئے۔بیشتر سیرت نگار کہتے ہیں کہ یہ ربیع الاوّل کا مہینہ تھا لیکن ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ رجب کا مہینہ تھا۔ (دیکھئے : مختصر السیرۃ از شیخ عبد اللہ ص :۷۵) ہمارے نزدیک دوسرا قول زیادہ صحیح ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے : شَهْرُ‌ رَ‌مَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْ‌آنُ (۲/۱۸۵) ''رمضان کا مہینہ ہی وہ (بابرکت مہینہ ہے ) جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا ''اور ارشاد ہے: إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ‌ (۹۷/۱) یعنی ''ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ '' اور معلوم ہے کہ لیلۃ القدر رمضان میں ہے،یہی لیلۃ القدر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں بھی مراد ہے: إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَ‌كَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِ‌ينَ(۴۴/۳) ''ہم نے قرآن مجید کو ایک بابرکت رات میں اتارا۔ ہم لوگوں کو عذاب کے خطرے سے آگاہ کرنے والے ہیں۔ ''دوسر ے قول کی ترجیح کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حراء میں رسول اللہﷺ کا قیام ماہ رمضان میں ہوا کرتا تھا اور معلوم ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام حراء ہی میں تشریف لائے تھے۔
جو لوگ رمضان میں نزول وحی کے آغاز کے قائل ہیں ان میں پھر اختلاف ہے کہ اس دن رمضان کی کونسی تاریخ تھی۔ بعض سات کہتے ہیں۔ بعض سترہ اور بعض اٹھارہ (دیکھئے: مختصر السیرہ ص ۷۵ رحمۃ للعالمین ۱/۴۹ ) ابن اسحاق اور علامہ خضری کا اصرار ہے کہ یہ سترہویں تاریخ تھی۔ دیکھئے : تاریخ خضری ۱/۶۹ اور تاریخ التشریع الاسلامی ص ۵، ۶،۷۔)
میں نے ۲۱ تاریخ کو اس بنا پر ترجیح دی ہے کہ بیشتر سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ آپ کی بعثت دوشنبہ کے روز ہوئی تھی اور اس کی تائیدابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ سے دوشنبہ کے دن کے روزے کی بابتïïï
آیئے ! اب ذرا حضرت عائشہ ؓ کی زبانی اس واقعے کی تفصیلات سنیں جو نبوت کا نقطۂ آغاز تھا اور جس سے کفر وضلالت کی تاریکیاں چھٹتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ زندگی کی رفتار بدل گئی اور تاریخ کا رُخ پلٹ گیا ، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ پر وحی کی ابتدا نیند میں اچھے خواب سے ہوئی۔ آپ جو بھی خواب دیکھتے تھے وہ سپیدۂ صبح کی طرح نمودار ہوتا تھا، پھر آپ کو تنہائی محبوب ہوگئی۔ چنانچہ آپ غارِ حرا میں خلوت اختیار فرماتے اور کئی کئی رات گھر تشریف لائے بغیر مصروفِ عبادت رہتے۔ اس کے لیے آپ توشہ لے جاتے۔ پھر (توشہ ختم ہونے پر ) حضرت خدیجہ ؓ کے پاس واپس آتے اور تقریباً اتنے ہی دنوں کے لیے پھر توشہ لے جاتے۔ یہاں تک کہ آپ کے پاس حق آیا اور آپ غارِ حراء میں تھے، یعنی آپ کے فرشتہ آیا اور اس نے کہا پڑھو۔ آپ نے فرمایا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس پراس نے مجھے پکڑ کر اس زور سے دبایا کہ میری قوت نچوڑ دی۔ پھر چھوڑ کر کہا: پڑھو ! میں نے کہا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے دوبارہ پکڑ کر دبوچا۔ پھر چھوڑ کر کہا: پڑھو ! میں نے پھر کہا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے تیسری بار پکڑ کر دبوچا، پھر چھوڑ کر کہا: اقْرَ‌أْ بِاسْمِ رَ‌بِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَ‌أْ وَرَ‌بُّكَ الْأَكْرَ‌مُ ﴿٣﴾
''پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ، انسان کو لوتھڑے سے پیدا کیا ، پڑھو اور تمہارا رب نہایت کریم ہے۔''
ان آیات کے ساتھ رسول اللہﷺ پلٹے۔ آپﷺ کا دل دَھک دَھک کر رہا تھا۔ حضرت خَدِیجہ ؓبنت خویلد کے پاس تشریف لائے اور فرمایا مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اڑھا دو۔ انہوں نے آپﷺ کو چادر اوڑھا دی یہاں تک کہ خوف جاتا رہا۔
اس کے بعد آپﷺ نے حضرت خدیجہ ؓ کو واقعے کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا۔ یہ مجھے کیا ہوگیا ہے؟ مجھے تو اپنی جان کاڈر لگتا ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ نے کہا قطعاً نہیں۔ واللہ ! آپﷺ کو اللہ تعالیٰ رسوا نہ کرے گا۔ آپﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ تہی دستوں کا بند وبست کرتے ہیں۔ مہمان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ïïïدریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں پیدا ہوا اور جس میں مجھے پیغمبر بنایا گیا ۔ یا جس میں مجھ پر وحی نازل کی گئی ۔ (صحیح مسلم ۱/۳۶۸ ، مسند احمد ۵/۲۹۷ ، ۲۹۹ بیہقی ۴/۲۸۶ ، ۳۰۰ حاکم ۲/۲،۶ ) اور اس سال رمضان میں دوشنبہ کا دن ۷، ۱۴، ۲۱، اور ۲۸تاریخوں کو پڑا تھا ادھر صحیح روایات سے یہ ثابت اور معین ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پڑتی ہے اور انھی طاق راتوں میں منتقل بھی ہوتی رہتی ہے ۔ اب ہم ایک طرف اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دیکھتے ہیں کہ ہم نے قرآن مجید کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ۔ دوسری طرف ابو قتادہؓ کی یہ روایت دیکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو دوشنبہ کے روز مبعوث فرمایا گیا ۔ تیسری طرف تقویم کا حساب دیکھتے ہیں کہ اس سال رمضان میں دوشنبہ کن کن تاریخوں میں پڑا تھا تو متعین ہوجاتا ہے کہ نبیﷺ کی بعثت اکیسویں رمضان کی رات میں ہوئی ۔ اس لیے یہی نزول ِ وحی کی پہلی تاریخ ہے ۔
آیتیں عَلَّمَ الْاِِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ تک نازل ہوئی تھیں۔اس کے بعد حضرت خدیجہ ؓ آپ کو اپنے چچیرے بھائی وَرَقَہ بن نَوفل بن اسد بن عبد العزیٰ کے پاس لے گئیں۔ ورقہ دورِ جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے اور عبرانی میں لکھنا جانتے تھے۔ چنانچہ عبرانی زبان میں حَسبِ توفیق الٰہی انجیل لکھتے تھے۔ اس وقت بہت بوڑھے اور نابینا ہوچکے تھے، ان سے حضرت خدیجہؓ نے کہا : بھائی جان ! آپ اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔ ورقہ نے کہا : بھتیجے ! تم کیا دیکھتے ہو ؟ رسول اللہﷺ نے جو کچھ دیکھا تھا بیان فرمادیا، اس پر ورقہ نے آپ سے کہا: یہ تو وہی ناموس ہے جسے اللہ نے موسیٰ ؑ پر نازل کیا تھا۔ کاش! میں اس وقت توانا ہوتا۔ کاش! میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اچھا ! تو کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا : ہاں! جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا جیسا تم لائے ہو تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارا زمانہ پالیا تو تمہاری زبردست مدد کروںگا۔ اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہوگئے اور وحی رک گئی۔ 1
وحی کی بندش:
رہی یہ بات کہ وحی کتنے دنوں تک بند رہی تو اس سلسلے میں ابن سعد نے ابن عباسؓ سے ایک روایت نقل کی ہے۔ جس کا مفاد یہ ہے کہ بندش چند دنوں کے لیے تھی اور سارے پہلوؤں پر نظر ڈالنے کے بعد یہی بات راجح بلکہ یقینی معلوم ہوتی ہے اور یہ جو مشہور ہے کہ وحی کی بندش تین سال یا ڈھائی سال تک رہی تو یہ قطعاً صحیح نہیں۔
روایات اور اہل علم کے اقوال پر نظر ڈالنے کے بعد میں ایک عجیب وغریب نتیجہ پر پہنچاہوں۔ جس کا ذکر مجھے کسی صاحب علم کے یہاں نہیں مل سکا۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ روایات اور اہل علم کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ غار حراء میں ہر سال ایک مہینہ تشریف رکھتے تھے اور یہ رمضان کا مہینہ ہوا کرتا تھا۔ یہ کام آپ نے نبوت کے تین سال پہلے سے شروع کیا تھا اور سال نبوت اس کام کا آخری سال تھا، پھر رمضان کے خاتمے کے ساتھ حراء میں آپ کی اقامت ختم ہوجاتی تھی اور آپ صبح کو ...یعنی پہلی شوال کی صبح کو ...گھر واپس آجاتے تھے۔
ادھر صحیحین کی روایات میں یہ بات صراحت سے بیان کی گئی ہے کہ وحی کی بندش کے بعد دوبارہ جس وقت وحی نازل ہوئی ہے اس وقت آپﷺ غار حراء میں اپنے قیام کا مہینہ پورا کر کے گھر تشریف لا رہے تھے۔ اس لیے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس رمضان میں آپﷺ نبوت اور وحی سے مشرف ہوئے اسی رمضان کے خاتمے کے بعد پہلی شوال کو دوبارہ وحی نازل ہوئی کیونکہ یہ حراء میں آپ کے قیام کا آخری موقع تھا اور جب یہ بات ثابت ہے کہ آپ پر پہلی وحی ۲۱/رمضان دوشنبہ کی رات نازل ہوئی تو اس کے معنی یہ ہے کہ وحی کی بندش کل دس دن تھی اور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری باب کیف کا بدء الوحی ۱/۲،۳ الفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ یہ روایت صحیح بخاری کتاب التفسیر اور تعبیر الرؤیا میں بھی مروی ہے۔ نیز مسلم : کتاب الایمان حدیث نمبر ۲۵۲
دوبارہ اس کا نزول جمعرات یکم شوال ۱ نبوت کو ہوا اور شاید یہی وجہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کو اعتکاف کے لیے خاص کیا گیا ہے اور پہلی شوال کو عید کے لیے۔ (واللہ اعلم )
وحی کی اس بندش کے عرصے میں رسول اللہﷺ حزین وغمگین رہے اور آپ پر حیرت واستعجاب طاری رہا۔ چنانچہ صحیح بخاری کتاب التعبیرکی روایت ہے کہ :
''وحی بند ہوگئی جس سے رسول اللہﷺ اس قدر غمگین ہوئے کہ کئی بار بلند وبالا پہاڑ کی چوٹیوں پر تشریف لے گئے کہ وہاں سے لڑھک جائیں، لیکن جب کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے کہ اپنے آپ کو لڑھکا لیں تو حضرت جبریل ؑ نمودار ہوتے اور فرماتے اے محمد! آپ اللہ کے رسول برحق ہیں اور اس کی وجہ سے آپ کا اضطراب تھم جاتا، نفس کو قرار آجاتا اور آپ واپس آجاتے ، پھر جب آپ پر وحی کی بندش طول پکڑ جاتی تو آپ پھر اسی جیسے کام کے لیے نکلتے لیکن جب پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے توحضرت جبریل ؑ نمودار ہوکر پھر وہی بات دہراتے۔''1
جبریل ؑ دوبارہ وحی لاتے ہیں:
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ یہ (یعنی وحی کی چند روزہ بندش ) اس لیے تھی تاکہ آپ پرجو خوف طاری ہوگیا تھا وہ رخصت ہوجائے اور دوبارہ وحی کی آمد کا شوق وانتظار پیدا ہوجائے۔2 چنانچہ جب یہ بات حاصل ہوگئی اور آپ وحی کی آمدکے منتظر رہنے لگے تو اللہ نے آپ کو دوبارہ وحی سے مشرف کیا۔ آپ کا بیان ہے کہ :
''میں نے حراء میں ایک مہینہ اعتکاف کیا۔ جب میرا عتکاف پورا ہوگیا تو میں اترا۔ جب بطن وادی میں پہنچا تو مجھے پکارا گیا۔ میں نے دائیں دیکھا ، کچھ نظر نہ آیا ، بائیں دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا۔ آگے دیکھا ، کچھ نظر نہ آیا، پیچھے دیکھا۔ کچھ نظر نہ آیا، پھر آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی تو ایک چیز نظر آئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس حِراء میں آیا تھا آسمان وزمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے۔ میں اس سے خوف زدہ ہوکر زمین کی طرف جاجھکا، پھر میں نے خدیجہؓ کے پاس آکر کہا : مجھے چادر اوڑھا دو ، مجھے چادر اوڑھادو، مجھے کمبل اوڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈال دو، انہوں نے مجھے چادر اوڑھادی اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تک نازل فرمائی: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ‌ ﴿١﴾ قُمْ فَأَنذِرْ‌ ﴿٢﴾ وَرَ‌بَّكَ فَكَبِّرْ‌ ﴿٣﴾ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ‌ ﴿٤﴾ وَالرُّ‌جْزَ فَاهْجُرْ‌ ﴿٥﴾ (المدثر:۱تا۵) یہ نماز فرض ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ اس کے بعد وحی میں گرمی آگئی اور وہ پیاپے نازل ہونے لگی۔ '' 3
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری کتاب التعبیر باب اول مابدئ بہ رسول اللہﷺ الرؤیا الصالحۃ ۲/۱۰۳۴
2 فتح الباری ۱/۲۷
3 صحیح بخاری کتاب التفسیر : تفسیر سورۂ مدثر باب اور اس کے مابعد ، فتح الباری ۸/۴۴۵ -۴۴۷ اور ایسا ہی صحیح مسلم ، کتاب الایمان حدیث نمبر ۲۵۷ ، ۱/۱۴۴ میں ہے۔یہی آیات آپﷺ کی رسالت کا نقطۂ آغاز ہیں۔ یہ رسالت آپ کی نبوت سے اتناہی عرصہ متأخر ہے جتنا عرصہ وحی بند رہی۔ اس میں دوقسم کی باتوں کا آپ کو مکلف کیا گیا ہے اور اس کے نتائج بھی بتلائے گئے ہیں۔
پہلی قسم:... تبلیغ اور ڈراوے کی ہے۔ جس کا حکم ''قم فانذر'' سے دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ اٹھ جایئے ، اور آگاہ کر دیجیے کہ لوگ اللہ برتر کے علاوہ دوسروں کی پوجا کر کے ، اور اس کی ذات وصفات اور افعال وحقوق میں دوسروں کو شریک ٹھہرا کر جس غلطی وگمراہی میں پھنسے ہوئے ہیں اگر اس سے باز نہ آئے تو ان پر اللہ کا عذاب آپڑے گا۔
دوسری قسم:... جس کا آپ کو مکلف کیا گیا ہے یہ ہے کہ آپ اپنی ذات پر اللہ کا حکم لاگو کریں اور اپنی حد تک اس کا التزام کریں۔ تاکہ ایک طرف آپ اللہ کی مرضی حاصل کرسکیں اور دوسری طرف ایمان لانے والوں کے لیے بہترین نمونہ بھی ہوں۔ اس کا حکم باقی آیات میں ہے چنانچہ وَرَ‌بَّكَ فَكَبِّرْ‌ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو بڑا ئی کے ساتھ خاص کریں اور اس میں کسی کو بھی اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ‌ اپنے کپڑے پاک رکھ۔ کا ،مقصود یہ ہے کہ کپڑے اور جسم پاک رکھیں۔ کیونکہ جو اللہ کے حضور کھڑا ہو اور اس کی بڑائی بیان کرے کسی صورت درست نہیں کہ وہ گندہ اور ناپاک ہو اور جب جسم ولباس تک کی پاکی مطلوب ہوتو شرک اور اخلاق وکردار کی گندگی سے پاکی بدرجہ اولیٰ مطلوب ہوگی۔ وَالرُّ‌جْزَ فَاهْجُرْ‌ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ناراضگی اور اس کے عذاب کے اسباب سے دور رہو اور اس کی صورت یہی ہے کہ اس کی اطاعت لازم پکڑو اور معصیت سے کنارہ کش رہو اور وَلَا تَمْنُن تَسْتَكْثِرُ‌ کامطلب یہ ہے کہ کسی احسان کا بدلہ لوگوں سے نہ چاہو۔ یا جیسا احسان کیا ہے اس سے افضل جزاء کی امید اس دنیا میں نہ رکھو۔
آخری آیت میں تنبیہ کی گئی ہے کہ اپنی قوم سے الگ دین اختیار کرنے ، اسے اللہ وحدہ لاشریک لہ کی دعوت دینے ، اور اس کے عذاب اور گرفت سے ڈرانے کے نتیجے میں قوم کی طرف سے اذیتوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس لیے فرمایا گیا: وَلِرَ‌بِّكَ فَاصْبِرْ‌ اپنے پروردگار کے لیے صبر کرنا۔
پھر ان آیات کا مطلع اللہ بزرگ وبرتر کی آواز میں ایک آسمانی نداء پر مشتمل ہے ، جس میں نبیﷺ کو اس عظیم وجلیل کام کے لیے اٹھنے اور نیند کی چادر پوشی اور بستر کی گرمی سے نکل کر جہاد وکفاح اور سعی مشقت کے میدان میں آنے کے لیے کہا گیا ہے: اے چادر پوش! اٹھ اور ڈرا۔ گویا یہ کہا جارہا ہے کہ جسے اپنے لیے جینا ہے وہ تو راحت کی زندگی گزار سکتا ہے لیکن آپ جو اس زبر دست بوجھ کو اٹھا رہے ہیں تو آپ کو نیند سے کیا تعلق ؟ آپ کو راحت سے کیا سروکار؟ آپ کو گرم بستر سے کیا مطلب ؟ یہ سکون زندگی سے کیا نسبت ؟ راحت بخش سازوسامان سے کیا واسطہ ؟ آپ اٹھ جایئے !اس کار عظیم کے لیے جو آپ کا منتظر ہے۔ ا س بار گزاں کے لیے جو آپ کی خاطر تیار ہے۔ اٹھ جایئے جہد ومشقت کے لیے۔ تکان اور محنت کے لیے۔ اٹھ جایئے ! کہ اب نیند اور راحت کا وقت گزر چکا۔ اب آج سے پیہم بیداری ہے اور طویل اور پر مشقت جہاد ہے۔ اٹھ جایئے ! اور اس کام کے لیے مستعد اور تیار ہوجایئے۔
یہ بڑا عظیم اور پر ہیبت کلمہ ہے۔ اس نے نبیﷺ کو پر سکون گھر ، گرم آغوش اور نرم بستر سے کھینچ کر تند طوفانوں اور تیز جھکڑوں کے درمیان اتھا ہ سمندر میں پھینک دیا اور لوگوں کے ضمیر اور زندگی کے حقائق کی کشاکش کے منجد ھار میں لاکھڑا کیا۔
پھر ...رسول اللہﷺ اٹھ گئے اور بیس سال سے زیادہ عرصہ تک اٹھے رہے، راحت وسکون تج دیا۔ زندگی اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال کے لیے نہ رہی۔ آپ اٹھے تو اٹھے ہی رہے ، کام اللہ کی دعوت دینا تھا۔ آپ نے یہ کمر توڑ بارگراں اپنے شانے پر کسی دباؤ کے بغیر اٹھا لیا۔ یہ بوجھ تھا اس روئے زمین پر امانت کبریٰ کا بوجھ ، ساری انسانیت کا بوجھ ، سارے عقیدے کا بوجھ اور مختلف میدانوں میں جہاد ودفاع کا بوجھ۔ آپ نے تیس سال سے زیادہ عرصے تک پیہم اور ہمہ گیر معرکہ آرائی میں زندگی بسر کی اور اس پورے عرصے میں ، یعنی جب سے آپ نے وہ آسمانی ندائے جلیل سنی، اور یہ گراں بار ذمہ داری پائی۔ آپ کو کوئی ایک حالت دوسری حالت سے غافل نہ کرسکی۔ اللہ آپ کو ہماری طرف سے اور ساری انسانیت کی طرف سے بہترین جزا دے۔ پہلا مرحلہ:
دعوت الی اللہ

خفیہ دعوت کے تین سال:
سورۂ مدثر کی گزشتہ آیات نازل ہونے کے بعد رسول اللہﷺ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھ گئے۔ چونکہ آپ کی قوم جفاکار تھی۔ بت پرستی اور درگاہ پرستی اس کا دین تھا۔ باپ دادا کی روش اس کی دلیل تھی۔ غرور وتکبر اور حمیت وانکار اس کا اخلاق تھا اور تلوار ان کے مسائل کا ذریعہ تھی۔ اس کے علاوہ وہ جزیرۃ العرب میں دینی پیشوائی کے صدر نشین تھے۔ اس کے اصل مرکز پر قابض اور اس کے وجود کے نگہبان تھے۔ اس لیے اس کیفیت کے پیش نظر حکمت کا تقاضا تھاکہ پہلے پہل دعوت وتبلیغ کا کام پس پردہ انجام دیا جائے، تاکہ اہل مکہ کے سامنے اچانک ایک ہیجان خیزصورت حال نہ آجائے۔
اوّلین رَاہروَان اسلام:
یہ بالکل فطری بات تھی کہ رسول اللہﷺ سب سے پہلے ان لوگوں پر اسلام پیش کرتے جن سے آپ کا سب سے گہرا ربط و تعلق تھا، یعنی اپنے گھر کے لوگوں اور دوستوں پر۔ چنانچہ آپ نے سب سے پہلے انہیں دعوت دی۔ اس طرح آپ نے ابتدا میں اپنی جان پہچان کے ان لوگوں کو حق کی طرف بلایا جن کے چہروں پر آپ بھلائی کے آثار دیکھ چکے تھے اور یہ جان چکے تھے کہ وہ حق اور خیر کو پسند کرتے ہیں ، آپ کے صدق وصلاح سے واقف ہیں۔ پھر آپ نے جنہیں اسلام کی دعوت دی ان میں سے ایک ایسی جماعت نے جسے کبھی بھی رسول اللہﷺ کی عظمت ، جلالتِ نفس اور سچائی پر شبہ نہ گزرا تھا، آپ کی دعوت قبول کر لی۔ یہ اسلامی تاریخ میں سابقین اولین کے وصف سے مشہور ہیں۔ ان میں سر فہرست آپ کی بیوی اُم المومنین حضرت خدیجہ ؓ بنت خویلد ، آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ بن شراحیل کلبی 1، آپ کے چچیرے بھائی حضرت علی بن ابی طالب، جو ابھی آپ کے زیر کفالت بچے تھے اور آپ کے یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ سب کے سب پہلے ہی دن مسلمان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 جنگ میں قید ہوکر غلام بنالیے گئے تھے۔ بعد میں حضرت خدیجہ ؓ ان کی مالک ہوئیں اور انہیں رسول اللہﷺ کو ہبہ کردیا۔ اس کے بعد ان کے والداور چچا انہیں گھر لے جانے کے لیے آئے لیکن انہوں نے باپ اور چچا کو چھوڑ کر رسول اللہﷺ کے ساتھ رہنا پسند کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے دستور کے مطابق انہیں اپنا متَبنی (لے پالک ) بنالیا اور انہیں زید بن محمد کہاجانے لگا۔ یہاں تک کہ اسلام نے اس رسم کا خاتمہ کردیا۔ یہ جنگ موتہ جمادی الاولیٰ ۸ ھ میں سپہ سالار لشکر کی حیثیت سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
 اس کے بعد ابو بکرؓ اسلام کی تبلیغ میں سرگرم ہوگئے۔ وہ بڑے ہر دلعزیزنرم خُو، پسندیدہ خصال کے حامل بااخلاق اور دریادل تھے ، ان کے پاس ان کی مروت ،دور اندیشی ، تجارت اور حسن صحبت کی وجہ سے لوگوں کی آمد ورفت لگی رہتی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے پاس آنے والوں اور اٹھنے بیٹھنے والوں میں سے جس کو قابلِ اعتماد پایا اسے اب اسلام کی دعوت دینی شروع کردی۔ ان کی کوشش سے حضرت عثمان ؓ، حضرت زبیر ؓ، حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ ، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ مسلمان ہوئے۔ یہ بزرگ اسلام کا ہر اوَل دستہ تھے۔
ان کے بعد امینِ امت 1حضرت ابوعبیدہ ؓ عامر بن جراح ؓ ، ابوسلمہ بن عبد الاسد مخزومی ، ان کی بیوی ام سلمہ، ارقم بن ابی الارقم مخزومی ، عثمان بن مظعون اور ان کے دونوں بھائی قدامہ اور عبداللہ ، اور عبیدہ بن حارث بن مطلب بن عبدمناف ، سعید بن زید عدوی ، اور ان کی بیوی، یعنی حضرت عمر ؓ کی بہن فاطمہ بنت خطاب عدویہ ، اور خباب بن اَرت تمیمی ، جعفر بن ابی طالب اور ان کی بیوی اسماء بنت عمیس ، خالد بن سعید بن عاص اموی ، ان کی بیوی امینہ بنت خلف، اور ان کے بھائی عمرو بن سعید بن عاص ، حاطب بن حارث جحمی ، ان کی بیوی فاطمہ بنت مجلل ، اور ان کے بھائی حطاب بن حارث ، اور ان کی بیوی فکیہہ بنت یسار ، اور ان کے ایک اور بھائی معمر بن حارث ، مطلب بن ازہر زہری اور ان کی بیوی رملہ بنت ابی عوف ، اور نعیم بن عبد اللہ بن نحام عدوی مسلمان ہوئے۔ یہ سب قبیلہ قریش کے مختلف خاندانوں اور شاخوں سے تعلق رکھتے تھے۔
قریش کے باہر سے جولوگ پہلے پہل اسلام لائے ان میں سر فہرست یہ ہیں : عبد اللہ بن مسعود ہذلی ، مسعود بن ربیعہ قاری ، عبد اللہ بن جحش اسدی ، ان کے بھائی احمد بن جحش ، بلال بن رباح حبشی ،صہیب بن سنان رومی ، عمار بن یاسر عنسی ، ان کے والد یاسر اور والدہ سمیہ ، اور عامر بن فہیرہ۔
عورتوں میں مذکورہ عورتوں کے علاوہ جو پہلے پہل اسلام لے آئیں ان کے نام یہ ہیں: أم ایمن برکۃ حبشیہ، حضرت عباس بن عبد المطلب کی بیوی أم الفضل لبابہ الکبریٰ بنت حارث ہلالیہ ، اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صاحبزادی حضرت اسماء۔ 2
یہ سب سابقین اولین کے لقب سے معروف ہیں۔ تلاش وجستجو سے معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ اسلام کی طرف سبقت کرنے کے وصف سے موصوف کیے گئے ہیں ان کی تعداد مردوں اور عورتوں کو ملا کر ایک سو تیس تک پہنچ جاتی ہے، لیکن یہ بات پورے تیقن کے ساتھ نہیں معلوم ہوسکی کہ یہ سب کھلی دعوت وتبلیغ سے پہلے اسلام لائے یا بعض لوگ اس سے متاخر بھی ہوئے تھے۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ اس کے بعد مردوں اور عورتیں اسلام میں جماعت درجماعت داخل ہوئیں، یہاں تک کہ مکہ میں اسلام کا ذکر پھیل گیا اور لوگوں میں اس کا چرچا ہوگیا۔ 1
یہ لوگ چھپ چھپا کر مسلمان ہوئے تھے اور رسول اللہﷺ بھی چھپ چھپا کر ہی ان کی رہنمائی اور دینی تعلیم کے لیے ان کے ساتھ جمع ہوتے تھے۔ کیونکہ تبلیغ کا کام ابھی تک انفرادی طور پر پسِ پردہ چل رہا تھا۔ ادھر سورۂ مدثر کی ابتدائی آیات کے بعد وحی کی آمد پورے تسلسل اور گرم رفتاری کے ساتھ جاری تھی۔ اس دور میں چھوٹی چھوٹی آیتیں نازل ہورہی تھیں۔ ان آیتوں کا خاتمہ یکساں قسم کے بڑے پرُ کشش الفاظ پر ہوتا تھا اور ان میں بڑی سکون بخش اور جاذب قلب نغمگی ہوتی تھی۔ جو اس پر سکون اور رِقت آمیز فضا کے عین مطابق ہوتی تھی پھر ان آیتوں میں تزکیہ نفس کی خوبیاں اور آلائش دنیا میں لت پت ہونے کی برائیاں بیان کی جاتی تھیں اور جنت وجہنم کا نقشہ اس طرح کھینچا جاتا تھا کہ گویا وہ آنکھوں کے سامنے ہیں۔ یہ آیتیں اہل ایمان کو اس وقت کے انسانی معاشرے سے بالکل الگ ایک دوسری ہی فضا کی سیر کراتی تھیں۔
نماز:
ابتدائً جو کچھ نازل ہوا اسی میں نماز کا حکم بھی تھا۔ علامہ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ نبیﷺ اور اسی طرح آپ کے صحابہ کرامؓ واقعۂ معراج سے پہلے قطعی طور پر نماز پڑھتے تھے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ نماز پنجگانہ سے پہلے کوئی نماز فرض تھی یا نہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے پہلے ایک ایک نماز فرض تھی۔
حارث بن اسامہ نے ابن لَہِیْعَہ کے طریق سے موصولاً حضرت زید بن حارثہؓ سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ پر ابتدائً جب وحی آئی تو آپ کے پاس حضرت جبریل تشریف لا ئے اور آپ کو وضو کا طریقہ سکھایا۔ جب وضو سے فارغ ہوئے تو ایک چُلّو پانی لے کر شرمگاہ پر چھینٹا مارا۔ ابن ماجہ نے بھی اس مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ براء بن عازبؓ اور ابن عباس ؓ سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔ ابن عباس ؓ کی حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ یہ (نماز) اولین فرائض میں سے تھی۔ 2
ابن ہشام کا بیان ہے کہ نبیﷺ اور صحابہ کرامؓ نماز کے وقت گھاٹیوں میں چلے جاتے تھے اور اپنی قوم سے چھپ کر نماز پڑھتے تھے۔ ایک بار ابو طالب نے نبیﷺ اور حضرت علیؓ کو نماز پڑھتے دیکھ لیا۔ پوچھا اور حقیقت معلوم ہوئی تو کہا کہ اس پر برقرار رہیں۔ 3
یہ عبادت تھی جس کا اہل ایمان کو حکم دیا گیا تھا۔ اس وقت نماز کے علاوہ اور کسی بات کے حکم کا پتہ نہیں چلتا البتہ وحی کے ذریعے توحید کے مختلف گوشے بیان کیے جاتے تھے ، تزکیۂ نفس کی رغبت دلائی جاتی تھی۔ مکارم اخلاق پر ابھارا جاتا تھا۔ جنت اور جہنم کا نقشہ اس طرح کھینچا جاتا تھا گویا وہ آنکھوں کے سامنے ہیں۔ ایسے بلیغ وعظ ہوتے تھے جن سے سینے کھل جاتے تھے۔ روحیں آسودہ ہوجاتیں اور اہل ایمان اس وقت کے انسانی معاشرے سے الگ ایک دوسری ہی فضا کی سیر کرنے لگتے۔
یوں تین برس گزر گئے اور دعوت وتبلیغ کا کام صرف افراد تک محدود رہا۔ مجمعوں اور مجلسوں میں اس کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن اس دوران وہ قریش کے اندر خاصی معروف ہوگئی ، مکہ میں اسلام کا ذکر پھیل گیا اور لوگوں میں اس کا چرچا ہوگیا۔ بعض نے کسی کسی وقت نکیر بھی کی اور بعض اہل ایمان پر سختی بھی ہوئی لیکن مجموعی طور پر اس دعوت کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ کیونکہ رسول اللہﷺ نے بھی ان کے دین سے کوئی تعرض نہیں کیا تھا۔ نہ ان کے معبودوں کے بارے میں زبان کھولی تھی۔


IRFAN ULLAH SHAH

lets talk to know each other

2 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی

Newsletter