وہ ایک مرد قلندر بھی کیا سکندر تھا؟

وہ ایک مرد قلندر بھی کیا سکندر تھا؟
وہ ایک مرد قلندر بھی کیا سکندر تھا؟

وہ ایک مرد قلندر بھی کیا سکندر تھا؟

نوید مسعود ہاشمی

مفتی محمود نور اللہ مرقدہ، صرف ایک نامور سیاست دان ہی نہیں، بلکہ ایک  جید عالم دین، متقی دین کے مبلغ اور ہزاروں علماء کے محترم استاد بھی تھے، انہوں نے اپنے کردار سے ''سیاست'' کو جو اعتبار بخشا، وہ انہیں کا خاصا ٹھہرا، وہ سیاست برائے ''اقتدار'' نہیں بلکہ سیاست کو ''عبادت'' سمجھ کر کرتے تھے، انہوں نے جیسے ''علم'' کی روشنی سے جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے کی کوشش کی ویسے ہی ''سیاست'' میں شاندار اصول اور روایات قائم کرکے ملکی سیاست سے مکروفریب اور جھوٹ کو ختم کرنے کی کوششیں کیں، انہوں نے اپنی دینی غیرت، علمی  وجاہت، تقویٰ و طہارت اور سیاسی تدبر سے وطن عزیز پاکستان کو جو استحکام بخشا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ ''بیٹے'' سے بڑھ کر باپ کو بھلا اور دوسرا کون جان سکتاہے؟ اتوار کے دن کنونشن سینٹر  اسلام آباد میں مفتی محمود کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے جو اشعار پڑھے، ان میں مولانا مفتی محمود نوراللہ مرقدہ کی شخصیت کی صحیح عکاسی ہوتی ہے، لیجئے آپ بھی پڑھ کر اپنے ایمان کو تازگی بخشئے۔
وہ  شب زدوں میں سحر کا دماغ رکھتا تھا
ہوا کی دوش پہ اپنا چراغ رکھتا تھا
جوکر رہا تھا رفو دوسروں کے زخموں کو
وہ اپنے دل کو مگر باغ باغ رکھتا تھا
وہ جس کے عزم پہ قربان جوانیوں کا غرور
وہ مرد پیر بھی کیسا شباب رکھتا تھا
عجیب جاگتی آنکھوں میں خواب رکھتا تھا
وہ نوک خار پہ برگ گلاب رکھتا تھا
خدا کی  ذات پہ اس کا یقین کامل تھا
وہ دل میں عشق رسالت مآبۖ رکھتا تھا
اور کرن کرن کو اجالوں کی بھیک دیتا تھا
نظر نظر میں وہ صد آفتاب رکھتا تھا
وہ اپنی زیست کے لمحوں کی لاج رکھتا تھا
وہ کل کو اپنے تصرف میں آج رکھتا تھا
وہ اک خطیب شعلہ نوا بھی تھا لیکن
غضب کی دھوپ میں شبنم مزاج رکھتا تھا
وہ خار زار محبت پہ چل رہا تھا مگر
گلوں کے قرض وہ اپنا خراج رکھتا تھا
وہ ایک مرد قلندر بھی کیا سکندر تھا
جو اپنے پائوں کی ٹھوکر پہ تاج رکھتا تھا
قاری محمد عثمان جامعہ عثمانیہ شیر شاہ کراچی کے مہتمم اور مولانا فضل الرحمن کے قریبی ساتھی اور ترجمان سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے 6جون1980ء میں جامعہ عثمانیہ کے افتتاح کے موقع پر  حضرت اقدس مفتی محمود نے اجتماع عام میں جو تقریر فرمائی تھی اس کا ایک حصہ اس خاکسار کو بجھوایا ہے وہ میں قارئین کی نذر اس نیت سے کر رہا ہوں تاکہ وہ جان سکیں کہ مولانا مفتی محمود کے زریں خیالات کی پرواز کا عالم  کیا تھا؟ حضرت اقدس مولانا مفتی محمود  اپنے خطاب میں فرماتے ہیں کہ   ''ہم نے اپنی زندگی کا مقصد طے کرلیا ہے یا تو اسلام کا نظام عدل پاکستان میں حاصل کرکے ر ہیں گے یا پھر اپنی جان دے دیں گے۔ تیسرا درمیان میں کوئی راستہ نہیں۔اسلام کے علاوہ کسی باطل نظام سے صلح نہیں کرسکتے۔ 33سال کا طویل عرصہ گزرچکا ہے۔ اس پورے عرصہ میں ہماری جدو جہد کے سامنے مشکلات حائل ہوئی ہیں لیکن ہم مایوس نہیں۔ اس لئے کہ نتائج ہمارے اختیار میں نہیں۔ وہ اللہ کے اختیار میں ہیں نہ معلوم وہ ہمارا کتنا امتحان لینا چاہتے ہیں۔ صحیح مسلم کی روایت میں آتا ہے کہ ''ایسا نبی خدا کے سامنے آئے گا جس کے ساتھ ایک بھی امتی نہیں ہوگا،کسی کے ساتھ ایک امتی ہوگا۔ایسا نبی خدا کے سامنے آئے گا جس کے ساتھ دو امتی ہوں گے۔ ایسا نبی آئے گاجس کے ساتھ چھ، سات، آٹھ امتیوں کی جماعت ہوگی''۔ ہمیں یقین ہے کہ ان پیغمبروں نے جن کے ساتھ لوگ نہیں تھے اپنے مشن کو تکمیل تک پہنچانے میں پوری زندگی صرف کردی،حضرات انبیاء کبھی تبلیغ دین میں کوتاہی نہیں کرتے۔ یہ بہت بڑی غلط بیانی ہے کہ کہا جائے کہ فلاں پیغمبر نے دین میں کوتاہی کی۔ ہر پیغمبر نے پوری عظمت کے ساتھ نبوت کی شان کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ کی دعوت پہنچائی لیکن دل خدا کے ہاتھ میں ہے۔ نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔''بنی آدم کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں، جیسے چاہے پھیر دے''۔تو ہدایت، کامیابی اور نتائج کا مرتب ہونا یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ہم تو اتنے مکلف ہیں کہ اس راستے پر چلیں اور اسی پر زندگی گزاریں۔ اس لئے ہم اللہ کے سامنے اور آپ کے سامنے یہ اقرار کرتے ہیں کہ(اللہ ہمیں توفیق بخشے) انشا اللہ ہماری زندگیاں اسلام کے لئے وقف ہیں اور ہم نے اسلامی نظام کو نافذ کرنا ہے۔
میرے محترم دوستو!پاکستان کا اقتدار جو آپ کے سامنے ہے اس اقتدار کو بچانے کے لئے اور اپنی کرسی کے تحفظ کے لئے جو بھی آتا ہے وہ اس کرسی کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے وہ ہمیشہ سمجھتا ہے کہ مجھے اس کرسی سے نہیں اترنا۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے لیکن میں اس اقتدار کے انجام کو جانتا ہوں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے؟۔یہاں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان مرحوم جب وزیر اعظم بنے ان کا انجام کیا ہوا؟ایک بدو شخص نے لیاقت باغ راولپنڈی کے اندر جلسہ عام میں ان کو گولی ماری اور بے کس کی لاش پڑی رہی۔ اس کے بعد جنرل غلام محمد آیا جسے لوگ مردِآہن کہتے تھے۔ جب مفلوج ہوا،لعاب اس کے منہ سے بہتا تھا لیکن اس کے حواری کہتے تھے کہ آپ جیسا مضبوط،طاقتور اعصاب والا کوئی نہیں۔ وہ خوش تھا کہ واقعی مجھ جیسا مضبوط آدمی کوئی نہیں ہے۔ اس کا حشر کیا ہوا؟اس مرد آہن کے سینے پر پستول رکھ کر اس سے استعفیٰ دلوایا گیا۔ پھر جب ان کی رحلت ہوئی تو کراچی کے اندر گوروں کے قبرستان میں ان کی قبر بنی۔ مسلمانوں کے قبرستان میں ان کو جگہ نہیں ملی،اس کے بعد سکندر مرزا تشریف لائے۔ سکندر مرزا کو یہاں سے جہاز میں بٹھاکر لندن بھیجا گیا۔وہ لندن کے ایک عام سے ہوٹل میں منیجر لگا اور ہوٹل کے منیجر کی حیثیت سے اس کا انتقال ہوا۔ اس کی لاش ایران لائی گئی اس وقت ایران میں اس کی تدفین ہوئی۔ 
آج کل آپ نے اخبارات میں دیکھا کہ ایران کے لوگوں نے اس کی لاش کی ہڈیاں نکال کر باہر پھینک دیں اور کہا کہ یہ غدار ایران کی سرزمین پر دفن نہیں ہوسکتا۔ دیکھا آپ نے اقتدار کا انجام؟اس کے بعد ایوب خان آیا۔ ایوب خان غریب بڑی مشکل سے دس سال گزارسکا،لیکن ایک دن جب اس نے اپنے بچوں سے سنا کہ ایوب کتا ہائے ہائے۔۔۔۔ اپنے بچوں کو بلایا اور پوچھا تو بچے کہنے لگے کہ ابا جی!ہم تو سکول میں بھی ایسا ہی کہتے ہیں۔۔۔ وہ پھر بھی ہوشیار تھا وہ سمجھ گیا ۔۔۔اس نے استعفیٰ دیا اور الگ ہوکر بیٹھ گیا۔۔۔۔ پھر آغا محمد یحییٰ خان تشریف لائے۔وہ آج کل پنڈی کے ایک محلہ میں رہتا ہے اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ محلے کی کسی گلی سے باہر نہیں نکل سکتا۔ آزاد ہے لیکن بچوں کے ڈر سے باہر نہیں نکل سکتا۔بچے پیچھے پڑجاتے ہیں۔اس کے بعد بھٹو صاحب تشریف لائے اور اس کا حشر بھی ہم سب نے دیکھ لیا۔ مجھے تعجب اور افسوس ہے کہ پاکستان کے مقتدر لوگوں کی تاریخ سے کسی نے سبق نہیں سیکھا، ہم نے سبق سیکھا۔ جب میں وزیر اعلیٰ تھا میں نے استعفیٰ دیا اور جب قومی اتحاد نے میری مرضی کے خلاف حکومت میں شمولیت کی تو میں نے ان کو کھینچتے ہوئے سب کو باہر نکالا۔ 
جنرل ضیا الحق نے 12ربیع الاول کو چند اسلامی قوانین نافذ کئے تھے وہ بھی قومی اتحادسے مجبورہوکر، اس لئے کہ قومی اتحاد نے اسلامی قوانین کی شرط لگائی تھی،پھر قومی اتحاد نے حکومت سے علیحدگی اختیار کی۔ اس کے بعد انہوں نے ان قوانین کا جو حشر کیا وہ سب نے دیکھا۔ طویل عرصہ گزر چکا ہے، کیا کسی چور کا ہاتھ کٹا ہے؟کیا کسی زانی کو سنگسار کیا ہے؟ کسی ڈاکو کو پھانسی دی؟ اسلامی حدود کے اعلان کے بعد عملاً ایک کیس بھی اسلامی قوانین کے مطابق نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں اپنی ناکامی کا اعتراف کیا، لیکن کہا کہ اصل میں عدالتی نظام غلط ہے۔۔۔نئے سرے سے قاضیوں کا تقرر کیا جائے گا۔ لیکن قاضی کہاں سے لا ئوگے؟کیا یہ قاضی بنیں گے؟جو بلدیاتی نظام کے ذریعے صوبائی اسمبلیوں میں پہنچنے ہیں۔۔۔۔آج پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نامزد اسمبلیاں وجود میں آئی ہیں، اب نیشنل اسمبلی کو بھی نامزدگی کر کے پر کا جا رہا ہے۔۔۔۔ میں کہتا ہوں کہ یہ قیامت کی علامت ہے،قیامت کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ نئے نئے امور منکشف ہوں گے۔۔۔۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا اسلامی حدود کا نفاذ عدالتی نظام کی کمزوری کی وجہ سے نہ ہوسکا؟یا کوئی اور وجہ تھی؟انہوں نے طریقہ کار یہ اپنایا کہ ہر ضلع میں ایک شرعی عدالت ہوگی۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ضلع جھنگ میں ایک شرعی عدالت میں ایک مرزائی کو جج مقرر کیا گیا ۔۔۔اور کہا کہ یہ جج رہے گا، غرض یہ ہے کہ شرعی عدالتیں بھی مرزائیوں سے تشکیل دی جاتی ہیں۔۔۔ اور پھر جب کوئی شخص اعتراض کرتا ہے تو یہ ناراض بھی ہوجاتے ہیں۔۔۔ ڈاکٹر عبد السلام آتے ہیں تو پورے ملک میں ان کو۔۔۔ استقبالیہ دیا جاتا ہے۔۔۔ وہ واضح مرزائی ہے، جب قومی اسمبلی سے مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تو ڈاکٹر عبد السلام اس فیصلہ پر ناراض ہوکر ۔۔۔ملک چھوڑ کر چلے گئے اور کہا کہ میں اس ملک میں نہیں رہتا۔۔۔ جس میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیاگیا ہے اور پھر جنرل ضیاء  الحق کے دور میں واپس آئے، جنرل صاحب پر اعتماد تھا تو اس لئے واپس آئے۔۔۔۔ اس اسمبلی کے اندر جس میں مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا ۔۔۔  میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ... انشا اللہ یہ ناممکن ہے کہ ہمارے ہوتے ہوئے مرزائیوں کو پھر مسلمان قرار دیا جائے,
غرض اس نے قوانین بھی بنائے اور طریقہ کار یہ رکھا کہ شرعی عدالت اگر چور کے ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ سنائے تو... اس پر عمل درآمد اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک سیشن کورٹ اس کی توثیق نہ کرے...۔ شرعی عدالت کے فیصلہ کرنے کے بعد سیشن کورٹ اس سزا کو رد کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔.. کیا شرعی اور قرآنی فیصلہ کو سیشن کورٹ کے فیصلہ پر موقوف کرنا، شرعی عدالت کے فیصلہ کو انگریزی قانون کے... تحت رکھ کر انگریزی قانون کی بالادستی قبول کرنا، یہ کھلم کھلا اسلام کی توہین نہیں؟تینوں قوانین بیک وقت موجود ہیں۔۔.۔ شرعی سزا کے نفاذ کے۔۔۔ بعد مارشل لاریگولیشن۔۔۔۔ منسوخ کی گئی، اور نہ ہی انگریزی قانون کی سزا کو ختم کیا گیا،اب جب کیس ہوتا ہے تو انتظامی افسر ملزم سے کہتا ہے کہ تمہیں کس عدالت میں لے جایا جائے؟ہاتھ کاٹنے والی عدالت میں، یا دیگر عدالتوں میں؟ ملزم روتا ہے کہ مجھے شرعی عدالت میں مت لے جائیں، آپ بتائیں کہ جب مسلمان شرعی عدالت سے انکار کرے وہ مسلمان رہتا ہے؟میرے دوستو!ہم یہ نہیں چاہتے کہ کسی کا ہاتھ کٹے، ہم چاہتے ہیں کہ جرائم کا سدباب ہو اور جرائم کا سدباب صرف اسلامی قوانین سے ہوگا۔۔۔۔ اس کراچی میں اگر ایک چورکا ہاتھ کاٹ کر لٹکادیا جائے تو پوری کراچی میں نہ کوئی چور چوری کرے گا نہ کسی کا ہاتھ کٹے گااور پورے شہر میں۔۔۔۔ امن ہو تو کیا یہ سودا سستا نہیں؟اللہ تعالیٰ ہماری زندگیاں اسلام کے نفاذ کے لئے صرف کردے"قارئین کرام!حضرت مفتی محمود  رحمتہ اللہ علیہ کا  یہ خطاب آج سے 41سال قبل... اس وقت ہوا تھا جب پاکستان 33 سال کا تھا، آج پاکستان 75 سال کا ہوگیا ہے، آج کے حکمرانوں کے لئے بھی اس میں سبق موجود ہے۔  مولانا مفتی محمود رحمتہ اللہ علیہ کا دور حکومت مثالی تھا۔ ..انہوں نے پہلی بار اُردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان کے طور صوبہ سرحد کی سرکاری زبان قرار دے کر زبردست حب الوطنی کا مظاہرہ کیا تھا..۔شراب اور جوئے پر پابندی لگانا مولانا مفتی محمود  کا  بڑا کارنامہ تھا، مگر افسوس پاکستان میں قومی ہیروز کے تاریخی کردار کو ہمیشہ بھلا دیا جاتا ہے... اور ملک وقوم کے محسنوں کو جان بوجھ کر  فراموش کر دیا جاتا ہے، قومی اسمبلی میں پاکستان کی تاریخ کی طویل ترین جرح کے بعد مرزا ناصر ملعون کو لاجواب کرکے... ذوالفقار علی بھٹو مرحوم جیسے... روشن خیال زیرک سیاستدان اور ملک کے طاقت ور حکمران سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانا۔...  مولانا مفتی محمود   اوران کے دیگر ساتھیوں کا عالم اسلام کی تاریخ کاایسا   کارنامہ ہے کہ جس پر ملت اسلامیہ ہمیشہ انہیں خراج تحسین پیش کرتی رہے گی,
MARWAT TECHS

Hi Greetings! thanks for reaching here, We are so delighted to welcome you on board. Your intelligence and energy make you an asset to your family and love ones.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

Newsletter